امریکی سینیٹ نے اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یواو گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری کے معاملے پر ایک اہم فیصلہ کیا ہے جس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا۔ یہ وارنٹ غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیلی قیادت پر مبینہ جنگی جرائم کے الزامات کے تناظر میں جاری کیے گئے تھے۔
عالمی خبر رساں ادارے’روئٹرز‘ کے مطابق سینیٹ میں اس بل کی حمایت اور مخالفت میں زبردست کشمکش ہوئی، تاہم بالآخر یہ بل درکار 60 ووٹوں کے بغیر مسترد ہوگیا۔ بل کے حق میں 54 ووٹ پڑے جب کہ 45 ووٹ اس کے مخالف میں تھے۔
اس بل کے تحت بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی، جسے اسرائیل کی قیادت کے خلاف آئی سی سی کے وارنٹس گرفتاری کے بعد مزید پیچیده قانونی مسائل کا سامنا تھا۔
یہ وارنٹس، جن میں حماس کے کمانڈر محمد دیف کے خلاف بھی الزامات شامل ہیں، اسرائیل کے غزہ پر حملے میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کی وجہ سے جاری کیے گئے تھے۔ ان وارنٹس کے جاری ہونے سے عالمی سطح پر شدید بحث نے جنم لیا، جس میں ایک طرف اسرائیل کے حامیوں کی آوازیں بلند ہوئیں تو دوسری طرف آئی سی سی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے والے تحفظات بھی سامنے آئے۔

ڈیموکریٹک سینیٹروں کی بڑی تعداد نے اس بل کی شدید مخالفت کی، اور انہیں آئی سی سی کے اقدامات پر پابندیاں عائد کرنے کے نتیجے میں ممکنہ عالمی اثرات پر گہری تشویش تھی۔ سینیٹ میں اکثریتی رہنما چک شومر نے اس بل کی حمایت کی لیکن اس میں مزید ترمیم کی ضرورت پر زور دیا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی مفادات کو نادانستہ طور پر نقصان نہ پہنچے۔ شومر کا کہنا تھا کہ یہ بل اسرائیل کے خلاف متعصبانہ اقدام کے طور پر نظر آ سکتا ہے، اور اس میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے۔
سینیٹر جان تھون نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ آئی سی سی کے اقدامات امریکی شہریوں اور فوجی اہلکاروں کو مستقبل میں نشانہ بنانے کے لیے خطرناک مثال بن سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل کو ہدف بنانا ایک سنگین اقدام ہو سکتا ہے، جو دیگر امریکی اتحادیوں کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے‘۔
تھون نے کہا کہ اگر اس طرح کے اقدامات کو نظر انداز کیا گیا تو آئی سی سی کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا سکتی ہیں۔

دوسری جانب سینیٹر جان فیٹرمین، جو اس بل کے حق میں ووٹ دینے والے واحد ڈیموکریٹ تھے، نے اسرائیل پر آئی سی سی کے ‘بے بنیاد حملوں’ کی مذمت کی اور انہیں دفاع کے قابل قرار دیا۔ اسرائیل نواز گروپوں نے ان کی حمایت کی، جس میں امریکی اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) بھی شامل تھا۔
یاد رہے یہ پہلا موقع نہیں تھا جب امریکا کو آئی سی سی کے ساتھ تصادم کا سامنا کرنا پڑا۔ 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا نے آئی سی سی کے عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں، جب وہ امریکی فوجیوں پر ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جو بائیڈن کے دور میں ان پابندیوں کو ختم کردیا گیا تھا، لیکن ٹرمپ نے دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد پابندیوں کو پھر سے بحال کردیا تھا۔
اس پورے معاملے نے عالمی سیاست میں اسرائیل کے موقف اور آئی سی سی کے مستقبل پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں، اور اس پر مزید عالمی بحث چھڑنے کا امکان ہے۔