موجودہ معاشی حالات، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور روزمرہ زندگی کے اخراجات نے نوجوان نسل کو شادی اور خاندانی نظام کے پرانے تصورات پر سوال اٹھانے پر مجبور کر دیا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق شوہر پر فرض ہے کہ وہ بیوی اور بچوں کے تمام ضروری اخراجات خود برداشت کرے، چاہے وہ کرایہ ہو، بجلی کے بل، راشن، بچوں کی تعلیم، یا گھریلو ضروریات۔ اگر بیوی کام کرتی ہے، تو اس کی کمائی صرف اس کی اپنی ملکیت ہے۔ وہ چاہے تو خرچ کرے، چاہے بچائے، شوہر کا اس پر کوئی حق نہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈایٹ پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا آج کی عملی زندگی میں یہ ممکن ہے؟ سوال کے ساتھ ہی جواب میں کہنا تھا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں اور میں سمجھتا تھا کہ اگر بیوی بھی کماتی ہو تو دونوں مل کر گھر چلائیں گے، آمدن بھی دوگنی ہو گی اور معاشی بوجھ کم ہوگا۔ لیکن اب پتا چلا ہے کہ کمائی چاہے دونوں کریں، خرچے صرف مرد کے ذمے ہوں گے۔ تو پھر ایسے میں مرد کو کیا فائدہ؟
سوشل میڈیا پر جاری اس پوسٹ کے جواب میں صارفین نے مختلف تجربات شیئر کرتے ہوئے دلچسپ تبصرے کیے۔
ایک صارفہ کا کہنا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کے تجربات کے بارے میں نہیں جانتی لیکن میں نے پچھلی نسلوں کی خواتین کو زیادہ مالی تعاون کرتے دیکھا ہے، جب کہ وہ اس کا کریڈٹ نہیں لیتی تھیں۔ میری رائے میں خواتین کو اس کا کریڈٹ نہیں ملتا لیکن وہ اپنے خاندان کے لیے اپنے اثاثے بیچنے کو تیار ہیں۔ شاید یہ وہی ہے، جو میں نے دیکھا ہے اور دوسروں نے خواتین کی ایک مختلف تصویر دیکھی ہے۔
ایک اور صارف نے لکھا کہ میری بیوی آن اور آف کام کرتی ہے۔ جب وہ کام کر رہی ہوتی ہے، تو وہ نوکرانیوں، باورچیوں، آرام دہ اور پرسکون آدھے سفر کے لیے ادائیگی کرنا شروع کر دیتی ہے اور اس کی طرف سے میرے لیے کچھ سرپرائز جیسے میرے ہکے کے لیے قمیضیں یا ذائقہ۔ وہ اب بھی مجھ سے اپنی جیب خرچ اور کمیٹیوں کے پیسے لیتی ہے۔

امریکا کی مثال دیتے ہوئے ایک صارف کا کہنا تھا کہ یہاں تک کہ امریکا میں “اس کا پیسہ اس کا پیسہ ہے” بہت کم ہے اور صرف اس صورت میں ہوتا ہے، جب شوہر کی آمدنی زیادہ ہو۔
ایک صارف نے کہا کہ یہ آپ پر اور آپ کے ہمسفر پر منحصر کرتا ہے کہ وہ کیسے اصول اپناتے ہیں۔ اسلامی طور پر تو یہی طریقہ ہے، مگر حقیقت میں بہت کم لوگ ہی ایسا کرتے ہیں۔ کھانے کے لیے رقم کو برابر تقسیم کرنا ممکن نہیں۔ خواتین نہ صرف بچوں کو جنم دیتی ہیں اور ان کی پرورش کرتی ہیں، بلکہ عام طور پر عورت بننا زیادہ مہنگا ہوتا ہے۔ عام طور پر ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ گھریلو کام کو سنبھالیں گے اور خاندان کے بزرگ افراد کی دیکھ بھال کریں گے۔
ایک صارف کا کہنا تھا کہ آپ اس شخص سے شادی اس شخص کی وجہ سے کرتے ہیں، اس لیے نہیں کہ وہ کیا کماتا ہے یا گھر میں کتنا حصہ ڈالے گا۔
مزید پڑھیں: انڈیا میں ’لڑاکا مرغی‘ کے چرچے: ’یہ سب کچھ انتہائی شرمناک ہے۔‘
ایک اور صارف نے پوسٹ کے جواب میں لکھا کہ اگر یہ شادی کے بارے میں آپ کا نظریہ ہے تو بہتر یہی ہے کہ آپ شادی نہ کریں۔
پاکستان معاشرے کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک صارف نے کہا کہ میں نے اکثر پاکستانی گھرانوں میں دیکھا ہے کہ شوہر کماتا ہے، جب کہ بیوی گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ زیادہ تر معاملات میں ایسا محسوس بھی نہیں ہوتا کہ وہ والدین کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں کیونکہ ماں سب کچھ کر رہی ہے۔ لہٰذا کم از کم اس معاملے میں عورت سے یہ توقع رکھنا انتہائی غیر منصفانہ ہے کہ وہ ان کے اپنے ذرائع آمدن میں مالی تعاون کرے۔
اس سوال نے جہاں بحث کو جنم دیا ہے، وہیں دوسرے کے تجربات کو سننے اور سمجھنے کا موقع بھی دیا ہے کہ کس طرح شوہر اور بیوی مل کر گھر بساتے ہیں اور پیسوں سے کہیں زیادہ ضروری محبت رشتے ہیں۔