پاکستان تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی 3 نشستوں کےبعد رزلٹ نکلے بغیر پی ٹی آئی نےمذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ پی ٹی آئی نے 9مئی اور 26 نومبر پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ، جس پر عمل درآمد نہ ہونے پر بیرسٹر گوہر نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کیا ۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے راولپنڈی کچہری کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پی ٹی آئی نے اہم سیاسی مسائل کے حل کے لیے باضابطہ طور پر جوڈیشل کمیشن کی درخواست کی تھی لیکن حکومتی نمائندوں کی طرف سے کوئی سنجیدہ جواب نہیں آیا۔
بیرسٹرگوہر نے دعویٰ کیا کہ حکومت مذاکرات میں تاخیر کرنے کے لیے جان بوجھ کر غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر رہی ہے، اگر حکومتی قیادت واقعی مخلص ہوتی تو وہ بروقت جواب دیتی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 28 جنوری تک پی ٹی آئی کو جوڈیشل کمیشن کے مطالبے پر جواب دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر پی ٹی آئی کو کسی بھی فیصلے سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کا رابطہ صرف آرمی چیف سے تھا اور کسی دوسرے ادارے یا شخصیت سے مذاکرات کی تردید کی۔ پی ٹی آئی نے سیاسی دباؤ کے باوجود مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی،لیکن حکومت کی طرف سے عدم ردعمل نے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے میں رکاوٹ ڈالی۔
دوسری جانب حکومت نے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے باوجود اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے۔ حکومتی فریق نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ واپس لینے پر 31 جنوری تک انتظار کیا جائے گا، اور اگر پی ٹی آئی اپنی پوزیشن تبدیل کرتی ہے تو مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا کہ مذاکرات یک طرفہ طور پر ختم کیے گئے ہیں، کمیٹی کو کسی نے بھی ایک ہفتے کا وقت نہیں دیا تھا اگر ڈیڈلائن دی ہوتی تو ہم اس کا متبادل کوئی فیصلہ کر لیتے،اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے کمیٹی کے ساتھ بیٹھے گی نہیں تو حکومت دیواروں کے ساتھ مذکرات کرے گی؟

پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اس وقت کی سب سے بڑی بحث پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل پر مرکوز ہے۔ 23 دسمبر 2024 کو شروع ہونے والے اس مذاکراتی عمل کا مقصد ملک میں سیاسی اور معاشی بحران کے حل کے لیے دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت کا راستہ ہموار کرنا ہے، تاہم تین نشستوں کے بعد یہ عمل مشکلات کا شکار ہو گیا اور اس میں تیزی سے رکاوٹیں آنا شروع ہوئیں۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کے پرجوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا، جسے حکومت نے تسلیم کرنے سے گریز کیا۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی جانب سے دیگر مطالبات بھی پیش کیے گئے جن میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے ضمانتیں، سزا معطلی اور سیاسی قیدیوں کی بریت کی بھی درخواست کی گئی تھی۔ ان مطالبات کو “وسیع تر مذاکرات کی شرط” کے طور پر پیش کیا گیا تھا، تاہم حکومت نے ان پر سنجیدگی سے غور کرنے سے انکار کیا۔ ایک ہفتے کے اندر ان مطالبات پر جواب نہ دینے کے بعد پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اچانک مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔
بیرسٹر گوہر نے مذاکراتی عمل کے ناکام ہونے پر واضح کیا کہ حکومت اپنی پوزیشن پر قائم ہے اور اس کے مطابق پی ٹی آئی کا مطالبہ غیر معقول ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔

اس تمام صورتحال میں عوام اور سیاسی مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات دوبارہ کامیاب ہو پائیں گے یا ملک میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کرے گا۔ اس وقت ہر ایک کی نظر 31 جنوری تک کی تاریخ پر ہے، کیوں کہ حکومت نے پی ٹی آئی سے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی امید کا اظہار کیا ہے۔