Follw Us on:

پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں، ڈبلیو ایچ او

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Ho
پاکستان کی 220.9 ملین کی آبادی کے لیے صرف 500 ماہر نفسیات اور 400 کلینیکل ماہر نفسیات دستیاب ہیں۔ (تصویر: ناولوجی)

پاکستان میں ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے خدمات کی فراہمی اور پالیسیوں میں اہم خلا موجود ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 220.9 ملین کی آبادی کے لیے صرف 500 ماہر نفسیات اور 400 کلینیکل ماہر نفسیات دستیاب ہیں جو کہ دنیا بھر میں ضروری تعداد سے کہیں کم ہے۔

پاکستان میں ذہنی صحت کی خدمات محدود ہیں اور زیادہ تر افراد کو مناسب علاج تک رسائی نہیں ہے۔ حالیہ رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ذہنی بیماریوں کا شکار 70 سے 80 فیصد افراد علاج تک رسائی نہیں رکھتے جس کی وجہ آگاہی کی کمی، معاشرتی داغ اور صحت کی سہولتوں کی کمی ہے۔

اس کے علاوہ، بچوں اور نوعمروں کے لیے ذہنی صحت کی خدمات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں حالانکہ رپورٹ کے مطابق 20 فیصد سے زائد بچے ذہنی مسائل کا شکار ہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے قانون کی حالت بہتری کی طرف گامزن تو ہے لیکن اس میں اب بھی بہت سی خامیاں ہیں اوربہتری کی ضرورت ہے۔ 2001 میں پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے پہلا قانون متعارف کرایا گیا تھا جسے ‘ذہنی صحت آرڈیننس’ کا نام دیا گیا۔

Who@
پاکستان میں صرف 11 بڑی نفسیاتی ہسپتالیں ہیں اور صرف 578 کمیونٹی رہائشی دیکھ بھال کی سہولتیں ہیں۔ (تصویر: ایکسپیرینس لائف)

اس میں ذہنی مریضوں کے لیے علاج کی جدید طریقوں کو شامل کیا گیا تھا تاہم اس قانون میں ماہرین کی مشاورت اور مریضوں کی رائے کو نظرانداز کیا گیا۔ اس کے بعد 2010 میں اٹھارویں ترمیم کے تحت صحت کے انتظامات صوبوں کے حوالے کر دیے گئے جس کے نتیجے میں صوبوں نے اپنے اپنے ذہنی صحت کے قوانین متعارف کرائے۔

پاکستان میں ذہنی صحت کی خدمات کی فراہمی میں حکومت اور نجی شعبے دونوں کا کردار ہے مگر سہولتوں کی کمی اور ماہرین کی کمیابی ایک سنگین مسئلہ ہے۔

 پاکستان میں صرف 11 بڑی نفسیاتی ہسپتالیں ہیں اور صرف 578 کمیونٹی رہائشی دیکھ بھال کی سہولتیں ہیں۔ اس کے علاوہ 800 عمومی ہسپتالوں میں نفسیاتی یونٹس ہیں مگر ذہنی صحت کے مریضوں کے لیے بستر کی تعداد 2.1 فی 100,000 لوگوں کے حساب سے بہت کم ہے۔ بچوں کے لیے نفسیاتی بستر کا تناسب تو اور بھی کم ہے۔

پاکستان میں ذہنی صحت کے حوالے سے عوامی آگاہی کی سطح کم ہے۔ ذہنی بیماریوں کے بارے میں آگاہی کے پروگرامز کی کمی اور ایسے افراد جو کسی نفسیاتی ماہر کے پاس جانے کو توہین جانتے ہیں اور سمجھتے کہ میں پاگل تو نہیں ہوں تو کیوں جاوں ان کے لیے مناسب معلومات کی فراہمی میں کمی ہے۔

Who 3
پاکستان میں ذہنی بیماریوں کا تناسب کل بیماریوں کے تناسب کا 4 فیصد سے زیادہ ہے۔ (تصویر: دی چیلسی)

 اس کے باوجود کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور عالمی ادارے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘تسکین ہیلتھ انیشی ایٹو’ اور ‘انٹرایکٹو ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ’ جیسے ادارے عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں مگر یہ اقدامات محدود اور مختصر ہیں۔

پاکستان میں ذہنی صحت کے نظام کے مسائل کے حل کے لیے ایک مربوط اور منظم حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ذہنی صحت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر عوامی آگاہی کی مہمات چلانے، صوبوں کے درمیان تعاون بڑھانے، اور قانون سازی میں مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔

مزید براں ذہنی صحت کے شعبے میں تحقیق اور خدمات کی فراہمی کے لیے زیادہ وسائل کی ضرورت ہے تاکہ ہر فرد تک ذہنی صحت کی خدمات پہنچ سکیں۔

واضع رہے کہ پاکستان میں ذہنی بیماریوں کا تناسب کل بیماریوں کے تناسب کا 4 فیصد سے زیادہ ہے، اور خواتین میں یہ تناسب اور بھی زیادہ ہے۔ اندازہ ہے کہ پاکستان میں 24 ملین لوگ ذہنی صحت کے علاج کی ضرورت رکھتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت  (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق پاکستان میں 100,000 افراد پر صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں جو کہ  ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں سب سے کم تعداد ہے اور دنیا بھر میں بھی بہت کم ہے۔

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس