ایک گرم دوپہر کا تصور کریں جب شہر لاہور کی سڑکیں خالی، سکولوں کے بیرونی دروازے بند اور ہوائیں ایک بھی آرام دہ لمس نہیں دے رہیں، بس بھاپ کی مانند ہوا اور دلوں میں بے آرامی۔ اس ماحول میں ایک فیصلہ آیا، پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کر کے موسم کی شدت سے بچوں کو محفوظ رکھنے کا عہد کیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ صرف ایک موسمی اقدام ہے یا اس کے پیچھے سیاست، حکمتِ عملی، اور عوامی اعتماد کا پیچیدہ معمہ؟
جب پنجاب کے مختلف شہروں میں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر جانے لگا تو والدین اور عوام میں تشویش بڑھنے لگی۔ سوشل میڈیا پر درجنوں ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں بچوں کو اسکولوں میں بے ہوش ہوتے دیکھا گیا۔ کچھ جگہوں پر والدین نے احتجاج بھی کیا کہ بچوں کو ایسے موسم میں اسکول بھیجنا جان لیوا رسک ہے۔ اس عوامی دباؤ کے بعد حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا کہ 21 مئی سے اسکولوں کے اوقات صبح 7:30 بجے کر دیے جائیں گے اور گرمیوں کی تعطیلات 28 مئی سے شروع ہوں گی، جو کہ 14 اگست تک جاری رہیں گی۔ یہ دورانیہ پہلے سے طے شدہ شیڈول کے مقابلے میں کہیں زیادہ طویل ہے۔
اس سے قبل محکمہ صحت نے ہدایت جاری کی تھیں کہ اسکولوں میں غیر ضروری بیرونی سرگرمیوں پر پابندی ہو، صاف پینے کا پانی اور کولنگ سسٹم لازمی فراہم کیا جائے اور بچوں کو ہلکے، روشن رنگ کے کپڑوں میں اسکول آنے کی ترغیب دی جائے۔ لیکن جب موسم نے شدت اختیار کی تو ان ہدایات کو ناکافی سمجھا گیا اور چھٹیاں آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عائشہ فاطمہ، جو ایک معروف ہیلتھ اسپیشلسٹ ہیں، کہتی ہیں کہ حکومت نے بروقت فیصلہ کیا۔ ان کے مطابق، “شدید گرمی میں بچوں کو اسکول جانے پر مجبور کرنا ان کی صحت کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدام اگرچہ تعلیمی کیلنڈر میں خلل ڈالے گا لیکن بچوں کی جانوں کا تحفظ اولین ترجیح ہونی چاہیے۔”

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر تعلیم ڈاکٹر رمشا نعیم نے کہا کہ یہ اقدام وقتی طور پر درست ہے لیکن اس کے تعلیمی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ “گزشتہ تین برسوں میں ہم نے پہلے کورونا وبا، پھر معاشی بحران اور اب موسمی حالات کی وجہ سے تعلیمی نظام کو بار بار متاثر ہوتے دیکھا۔ بچوں کی تعلیم کا تسلسل ٹوٹنے سے سیکھنے کا عمل کمزور ہو رہا ہے۔ لیکن میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ اگر صحت اور تعلیم میں سے انتخاب کرنا ہو تو صحت کو ترجیح دینا عین دانشمندی ہے۔”
پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سماجی مبصر فہیم شاہ نے کہا کہ اس فیصلے کو صرف ایک موسمی ردعمل سمجھنا درست نہیں ہوگا۔ ان کے مطابق، “یہ فیصلہ سیاسی اور انتظامی پیغام بھی ہے۔ حکومت نے دکھایا ہے کہ وہ عوام کی آواز سنتی ہے اور ان کے مسائل پر فوری ردعمل دیتی ہے۔ جب والدین نے احتجاج کیا، تو محض چند دنوں میں پالیسی بدل گئی۔ یہ بات حکومتی ترجیحات کو واضح کرتی ہے کہ عوامی دباؤ اور صحت جیسے معاملات پر رعایت دی جا سکتی ہے۔”
یہ پہلی بار نہیں کہ پاکستان میں گرمی نے تعلیمی نظام کو متاثر کیا ہو۔ 2015 میں کراچی میں شدید گرمی کی لہر کے دوران 1200 سے زیادہ افراد جاں بحق ہوئے تھے اور تب سے ماہرین بار بار خبردار کرتے آ رہے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ حالیہ دنوں میں محکمہ موسمیات نے بھی الرٹ جاری کیا تھا کہ مئی اور جون میں ملک کے بیشتر علاقے شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں شدید گرمی کے دنوں میں اسکولوں کے اوقات کار کم کر دیے جاتے ہیں یا کلاسز کو آن لائن منتقل کر دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں آن لائن سہولت سب بچوں کو میسر نہیں، وہاں حکومت کے پاس فوری حل کے طور پر تعطیلات بڑھانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچتا۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر ماحولیات ڈاکٹر شہریار ملک نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ مسائل وقتی نہیں ہیں بلکہ مستقبل کی ایک جھلک ہیں۔ “پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اگر ہم نے اسکولوں، دفاتر اور شہروں کے ڈھانچے کو بدلتے موسم کے مطابق ڈھالنے کی پالیسی نہ اپنائی تو ہر سال ایسے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ یہ وقتی ریلیف ہے لیکن مستقل حل نہیں۔”
والدین کی ایک بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی جان سب سے قیمتی ہے اور اگر چھٹیاں کچھ لمبی بھی ہو جائیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کچھ والدین نے البتہ خدشہ ظاہر کیا کہ تعلیمی سال کے اختتام پر امتحانات اور نصاب کو مکمل کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ یہ فیصلہ صرف موسمی ردعمل ہے یا اس کے پیچھے سیاسی پیغام بھی ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ حکومت نے گرمی کو ایک موقع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ موقع اس بات کا کہ وہ اپنی ترجیحات واضح کرے اور عوام کو دکھائے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے۔ اس فیصلے نے کم از کم یہ یقین ضرور دلایا کہ ریاست بچوں کی صحت کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔

اس تمام صورتحال نے ایک بڑا سوال بھی اٹھایا ہے کہ پاکستان جیسے ملک، جہاں آبادی کا بڑا حصہ کم عمر بچوں پر مشتمل ہے، کیا آنے والے برسوں میں اپنی تعلیمی پالیسی کو موسمی حالات کے مطابق ڈھال سکے گا۔ کیا مستقبل میں تعلیمی اداروں کو اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے مستقل نظام دیا جا سکے گا۔ یا پھر ہر سال یہی بحث چلتی رہے گی کہ گرمی بڑھی تو اسکول بند، سردی بڑھی تو اسکول بند۔
بچوں کی تعلیم اور صحت دونوں پاکستان کے مستقبل سے جڑے ہیں۔ حکومت پنجاب کا حالیہ فیصلہ ایک عارضی ریلیف ضرور ہے لیکن یہ ایک بڑے سوال کا جواب مانگتا ہے کہ کیا ہم نے اپنے نظام کو بدلتے موسم کے مطابق تیار کیا ہے۔ اور اگر نہیں کیا تو کب کریں گے۔ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے وقت میں ہمارے لیے فیصلہ کن ہوگا۔