وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان کو بڑی تباہی سے بچا لیا گیا ہے، کوئٹہ سے کالعدم بی ایل کا سہولت کار گرفتار کیا ہے۔ دہشتگردوں سے کوئی رعایت نہیں ہوگی، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
کوئٹہ میں سکیورٹی فورسز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ سی ٹی ڈی سمیت سکیورٹی فورسز بلوچستان کے امن کے لیے بھرپور کوششیں کررہی ہیں، سکیورٹی فورسز نے یومِ آزادی پر تباہی کے بڑے منصوبے کو ناکام بنایا۔
انہوں نے کہا کہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر حملے میں بھی یہی لوگ ملوث تھے، بلوچستان میں محروم کا صرف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ سازش کے تحت دہشتگردی کو پسماندگی اور محرومی سے جوڑا جاتا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے کہا ہے کہ بلوچستان کے عوام محتاط اور گمراہ عناصر سے دور رہیں، والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ تحقیقات جاری ہیں،مزید پروپیگنڈہ ٹولز کا انکشاف ہوگا۔
انہوں نے کہا ہے کہ منظم انداز میں پاکستان کے خلاف سازش کی جاتی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے قومی دھارے میں شامل سیاسی جماعتوں بھی ابہام پیدا کیا جاتا ہے۔ گمراہ عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
سرفراز بگٹی نے انکشاف کیا کہ بلوچستان کو بڑی تباہی سے بچا لیا گیا ہے، کوئٹہ سے کالعدم بی ایل کا سہولت کار گرفتار کیا ہے۔ دہشتگردوں سے کوئی رعایت نہیں ہوگی، ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں دشمن خواتین کو بلیک میل کرکے دہشتگردی کرارہا ہے، قانون کی عملداری صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

سرفراز بگٹی نے سوال کیا کہ پروفیسر اگر دہشتگرد بن جائے تو کیا گلے میں ہار ڈالا جائے گا؟ ہم ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دیں گے۔ اس لیکچرر نے پاکستان اسٹیڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے اور یہ طالب علموں کو پاکستان اسٹڈیز پڑھاتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گرفتار لیکچرر کی اہلیہ بھی پڑھاتی تھی، والدہ بھی پنشن لیتی تھی، یہ کہاں سے محروم ہوئے؟ ایک منظم انداز میں پاکستان کو توڑنے کی سازش کی جارہی ہے۔ہم نے سوسائٹی کو اس کنفیوژن سے باہر نکالنا ہے۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم اجتماعی سز ا کے حق میں نہیں ہیں، جو لوگ ہمارے بچوں اور معصوم لوگوں کو ماررہے ہیں، ان کے ساتھ ہمارا سلوک الگ ہوگا۔ہم نے اسپیشل برانچ کو مستحکم کرنا ہے، فورتھ شیڈول بھی شروع کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے 2000 لوگوں کے سامنے سرینڈر نہیں کریں گے، جو ملک توڑنا چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کے خلاف تحقیقات کی گئیں، ان میں سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ جو لوگ ریاست کے خلاف ہیں، ان کے خلاف علیحدہ قوانین ہونے چاہیں۔
مزید پڑھیں: فیلڈ مارشل کی بہترین جنگی حکمتِ عملی کی بدولت پاکستان کو انڈیا کے خلاف جنگ میں فتح ملی، محسن نقوی
سرفراز بگٹی نے انکشاف کیا کہ مسنگ پرسنز کے معاملے کو ریاست کے خلاف استعمال کرکے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ ریاست دہشتگردی کے خلاف لڑائی لڑ رہی ہے، ملک کا سپریم ادارہ ملک کی پارلیمان ہے۔جو جو قوانین بنائے گئے ہیں یا اختیارات ملے ہیں، وہ پارلیمان نے دیے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میری پارلیمان بلوچستان کو لے کر کنفیوژ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی مذاکرات نہ کرنا چاہے تو کیا اسے مارنے کا لائسنس دے دیا جائے؟ دہشتگردی کی حمایت میں کم از کم نیشنل پارٹی تو نہیں بولے گی۔نیشنل پارٹی کو شاید اس حقیقت کا علم نہیں تھا، میرے لیے بھی پریشان کن ہے کہ دو اسسٹنٹ کمشنرز اغوا ہوئے، کوشش کررہے ہیں کہ وہ جلد سے جلد بازیاب ہوجائیں۔
وزیرِاعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بچوں کو پنجاب یونیورسٹی میں ایک ارب روپے کا اسکالرشپ دیا جارہا ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو نشانہ نہیں بناتی بلکہ ان کی حفاظت کرتی ہے۔
بیوٹم یونیورسٹی کے لیکچرر عثمان قاضی نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ ہم دہشتگرد کارروائیوں کے لیے ٹیلی گرام ایپلی کیشن کا استعمال کرتے تھے۔ مجھے حربیار کی طرف سے اہداف بتائے جاتے تھے۔
لیکچرر نے کہا کہ ریاست نے عزت اور وقار دیا۔ دہشتگرد کارروائیوں کے لیے سہولت کاری کی تھی، ریاست کے ساتھ غداری کرنے پر شرمندہ ہوں۔
گرفتار لیکچرر نے کہا ہے کہ میں تربت کا رہائشی ہوں، وہیں پہ پلا بڑھا ہوں، قائدِاعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کیا اور پشاور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ میں آئی ٹی یونیورسٹی میں 18 گریڈ میں لیکچرر تھا۔ بشیر زیب مجھے گائیڈلائن دیتا تھا۔