گزشتہ دنوں پاکستان کے مختلف حصوں میں شدید بارشوں کا سلسلہ جاری رہا، جس دوران ایک اصطلاح بار بار سننے کو ملی”بادل کا پھٹ جانا” یا کلاؤڈ برسٹ،یہ اصطلاح اتنی زیادہ دہرائی گئی کہ عوام کے ذہنوں میں سوال پیدا ہوا کہ بادل آخر کس طرح پھٹ سکتے ہیں۔ چند سال پہلے تک اس حوالے سے عام لوگوں میں زیادہ آگاہی نہیں تھی، مگر اب یہ موضوع عام بحث کا حصہ بن چکا ہے۔
کلاؤڈ برسٹ کے حوالے سے ماہر ماحولیات نادیہ قریشی نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانی کے قدرتی چکرواٹر سائیکل کے تحت جب سورج کی روشنی زمین پر موجود پانی پر پڑتی ہے تو وہ بخارات میں تبدیل ہو کر فضا کی جانب اٹھتا ہے اور بادلوں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ان بادلوں میں پہلے ہی نمی موجود ہوتی ہے اور ہوا کے دباؤ کے باعث یہ ایک مقام سے دوسرے مقام تک حرکت کرتے رہتے ہیں۔
نادیہ قریشی نے بتایا کہ موجودہ دور میں بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت اور گلوبل وارمنگ کے سبب بادلوں کی تشکیل کی رفتار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں، جہاں فضا کا درجۂ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے، بادل آپس میں ٹکرا کر جُڑ جاتے ہیں۔ اس عمل کے دوران بعض اوقات کیمیائی ردعمل بھی ہوتا ہے، جس سے مزید بادل بن جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایسے بادل بہت زیادہ بھاری ہو جاتے ہیں اور جب ہوا انہیں کسی دوسری سمت لے جانے کی کوشش کرتی ہے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں۔ نتیجتاً اچانک بڑی مقدار میں پانی بعض اوقات سو ملی میٹر یا اس سے بھی زیادہ ایک ہی مقام پر برس جاتا ہے، جو فوری طور پر ندی نالوں میں طغیانی اور شہری علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ یہ عمل کسی ایک مخصوص خطے تک محدود نہیں بلکہ اب ہر علاقے میں ممکن ہے۔ ماضی میں سمجھا جاتا تھا کہ کلاؤڈ برسٹ صرف شمالی یا پہاڑی علاقوں میں ہوتے ہیں، لیکن موجودہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یہ کسی بھی جگہ رونما ہو سکتے ہیں۔