تعلیم ہر معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے۔ مگر ہمارے ہاں تعلیم کا مقصد علم و آگاہی اور کردار سازی کے بجائے صرف نمبر حاصل کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جب بھی میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کے نتائج آتے ہیں تو پورے ملک میں ایک عجیب سی فضا چھا جاتی ہے۔
کہیں والدین خوشی سے مٹھائیاں بانٹ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے نے 1100 سے زیادہ نمبر لے لیے ہیں، تو کہیں ایک بچہ دل شکستہ ہو کر کمرے میں بند بیٹھا ہے کیونکہ اس کے نمبر “کم” آ گئے۔ یہی نمبروں کی دوڑ ہمارے معاشرتی رویوں کی اصل عکاسی کرتی ہے۔ حالیہ تعلیمی نتائج بھی اسی دوڑ کی ایک تازہ مثال ہیں۔ اخبارات، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر وہی خبریں نمایاں رہیں کہ کس نے 1200 میں سے 1190 نمبر لیے، کون پورے بورڈ میں پہلی پوزیشن پر آیا، اور کس سکول کے نتائج سب سے زیادہ نمایاں رہے۔
لیکن اس سارے ہنگامے میں اصل سوال پسِ پشت چلا گیا کہ کیا تعلیم کا مقصد صرف نمبر لینا ہے؟ کیا یہ بڑے بڑے مارکس ہی کسی طالب علم کی اصل قابلیت کی پہچان ہیں؟ یہ بات ماننے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کہ اچھے نمبروں کی اپنی اہمیت ہے۔ نمبروں سے ہی طلبہ کو اچھے کالجز یا یونیورسٹیز میں داخلہ ملتا ہے، اور بسا اوقات میرٹ کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے لیے نمبر ہی درکار ہوتے ہیں۔
لیکن یہ کہنا کہ صرف نمبر ہی سب کچھ ہیں، ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ عمومی طور پر ہمارے ہاں یہ تصور رائج ہے کہ جس بچے نے میٹرک میں 1100 سے زیادہ نمبر لیے وہی کامیاب ہے اور جس کے نمبر 800 یا 900 ہیں وہ ناکام ہے۔حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اگر ہم اپنے معاشرے اور تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بے شمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کئی طلبہ میٹرک یا انٹرمیڈیٹ میں اوسط درجے کے نمبر لائے، لیکن بعد میں مسلسل محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جن کے میٹرک میں صرف 700 یا 750 نمبر آئے، لیکن آج وہ بیوروکریسی، فوج، سیاست، تعلیم اور دیگر شعبہ جات میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ دنیا کی تاریخ بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔
کئی عالمی شخصیات نے تعلیمی سفر کے آغاز میں مشکلات کا سامنا کیا، امتحانات میں ناکامی دیکھی یا کم نمبر لیے، لیکن آگے چل کر وہ دنیا کو نئی سمت دینے والے افراد بن گئے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نمبر کبھی بھی حتمی کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتے۔
مزید پڑھیں: کراچی مر رہا ہے… اور تمہیں شرم نہیں آتی
ہمارے تعلیمی نظام کا سب سے بڑا المیہ “رٹا سسٹم” ہے۔ طلبہ کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ کتاب کے سوالات رٹ لو تاکہ امتحانات میں اچھے نمبر آسکیں ۔ میٹرک اور انٹر کے امتحانات میں معروضی سوالات کی صورت میں اکثر “قسمت” یا “گیس” بھی چل جاتے ہیں جس سے طلبہ کو زیادہ نمبر مل جاتے ہیں لیکن یہ نمبرز کسی بچے کی اصل قابلیت کو ظاہر نہیں کرتے۔
ایک بچہ اگر میٹرک میں 1100 نمبر لے بھی آیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ زندگی کے اگلے امتحانات میں بھی اتنا ہی کامیاب ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی نے 800 یا 850 نمبر حاصل کیے تو یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ناکام ہے۔ اصل کامیابی اس وقت سامنے آتی ہے جب عملی زندگی میں علم، سوچ اور مہارت آزمائش کے میدان میں کھڑی ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں سب سے بڑا دباؤ والدین کی طرف سے ڈالا جاتا ہے۔ بچے کو شروع سے یہ کہا جاتا ہے کہ اگر نمبر زیادہ نہ آئے تو تم ناکام ہو۔ یہی دباؤ بچے کو ذہنی دباؤ، اضطراب اور بعض اوقات ڈپریشن تک لے جاتا ہے۔ کئی دل دہلا دینے والے واقعات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ بچے صرف اس لیے اپنی جان تک دے بیٹھے کہ وہ والدین کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکے۔ والدین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بچے کی اصل کامیابی صرف نمبر نہیں ہیں۔
اگر بچے نے فرسٹ ڈویژن حاصل کر لی ہے تویہ کافی ہے۔ آگے چل کر یہی بچہ محنت کرے گا توایف ایس سی، بیچلر اور دیگر فیلڈز میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق نتائج دے گا۔ اگر اس پر مسلسل دباؤ ڈالا گیا تو اس کی خود اعتمادی ختم ہو جائے گی اور وہ مستقبل میں بڑی کامیابیوں کے بجائے چھوٹی ناکامیوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ کامیابی کا راز نہ تو محض نمبروں میں ہے اور نہ ہی پوزیشنز میں ۔ کامیابی کا راز مسلسل محنت کرنے میں پنہاں ہے۔
جو شخص لگن کے ساتھ اپنی منزل کے پیچھے بھاگتا ہے، کامیابی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ ناکامی کے بعد حوصلہ نہ ہارنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اگر بچہ ڈاکٹر نہیں بن سکتا تو شاید وہ انجینئر، استاد یا کاروباری شخصیت بن کر زیادہ کامیاب ہو۔ بچے کو یہ احساس دلانا کہ اس پر بھروسہ کیا جا رہا ہے، اس کے اندر ایک نئی توانائی پیدا کرتا ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ترقی کرے اور ہمارے بچے مستقبل میں بڑے کارنامے سر انجام دیں تو ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ بچوں کو نمبروں کے پیچھے بھگانے کے بجائے خواب دینے ہوں گے۔ انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ وہ جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں، بس شرط یہ ہے کہ وہ محنت، ایمانداری اور خلوص کے ساتھ اپنی راہ پر چلیں۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کو ان کی دلچسپی کے مطابق راستہ چننے دیں۔
مزید پڑھیں: فوجی ترجمان کا دعویٰ مسترد: ’میرے کالم میں لفظ ’انٹرویو‘ استعمال ہی نہیں ہوا‘
اگر بچہ سائنس میں دلچسپی نہیں رکھتا تو اسے زبردستی ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی کوشش نہ کریں۔ شاید وہ ادب، کھیل، صحافت یا کاروبار میں زیادہ کامیاب ہو۔ آخر میں ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ میٹرک کا رزلٹ محض ایک مرحلہ ہے، منزل نہیں۔ نمبر زیادہ یا کم ہونا مستقبل کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ نہیں کرتا۔ اصل کامیابی اس بات میں ہے کہ بچہ اپنی زندگی میں علم، کردار اور عمل کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لے کر آئے۔
لہٰذا والدین، اساتذہ اور معاشرے کے دیگر افراد سے گزارش ہے کہ بچوں پر نمبر حاصل کرنے کا دباؤ نہ ڈالیں۔ انہیں اعتماد دیں، ان کا ساتھ دیں، اور انہیں یہ باور کرائیں کہ زندگی کی اصل دوڑ نمبروں کی نہیں بلکہ صلاحیت، وژن اور محنت کی ہے۔ بچوں کو نمبروں کے بجائے خواب دیجیے، حوصلہ دیجیے، اور یہ سبق دیجیے کہ کامیابی کا راستہ کبھی رکاوٹوں سے خالی نہیں ہوتا۔ لیکن جو صبر، محنت اور اعتماد کے ساتھ اپنی راہ پر چلتے ہیں، وہی آخرکار منزل تک پہنچتے ہیں۔
نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر