اس وقت پنجاب کے کئی علاقے شدید سیلاب کی زد میں ہیں جہاں دریائے ستلج، راوی اور چناب کے طغیانی نے دو ہزار سے زائد دیہات اور بیس لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا ہے۔ اس سیلاب نے کہیں کسی کی چھت چھین لی ہے تو کہیں کسی کے زندگی بھر کے ارمان ڈبو دیے ہیں۔ کسی کی بیٹی کا جہیز پانی میں بہہ گیا، تو کسی کی ساری جمع پونجی لمحوں میں ختم ہو گئی۔ ایسی ہی ایک کہانی پاک پتن کے شہری کی ہے، جس نے ستلج کے قہر سے بچنے کے لیے اپنا سب کچھ بیچ کر لاہور کا رخ کیا، مگر اسے راوی بھی راس نہ آیا۔
ضلع پاک پتن کے رہائشی محمد منیر اپنی بربادی کی داستان سناتے ہوئے آنکھوں میں آنسو اور دل میں درد لیے کہتے ہیں کہ وہ ستلج سے بچنے کے لیے لاہور کا رخ تو کر گئے مگر قسمت نے ان کے لیے راوی کنارے ایک اور امتحان رکھ چھوڑا۔
محمد منیر پاکپتن کے ایک گاؤں میں ستلج کے کنارے رہتے تھے، مگر دریا کے خطرے کے باعث گھر بار چھوڑ کر لاہور آ کر مزدوری شروع کی تاکہ بچوں کو محفوظ چھت مل سکے۔ اسی دوران انہیں “تھیم پارک سوسائٹی” کا پتا چلا، جہاں سستے پلاٹوں کی امید نے انہیں اپنی ساری جمع پونجی لگانے پر آمادہ کیا۔ برسوں کی محنت سے مکان بنایا، لیکن نہ رجسٹری ملی اور نہ انتقال کروایا گیا بلکہ فائلیں دے کر ٹرخا دیا گیا ۔
محمد منیر نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں مزدور ہوں جب تھیم پارک سوسائٹی کا سنا کے سوسائٹی بہت سستی ہے چونکہ کہ ہم غریبوں کو چھت چاہیے تھی تو ہم نے ادھر اپنا پلاٹ لیااور محنت مزدوری کر کہ سر کو چھپانے کے لیے چھت کے لیے مکان مکمل کیا ،مگر ہمیں دھوکے میں رکھا گیا ، پلاٹ تو خرید لیا مگر اس کی رجسٹری نہیں دی صرف اور صرف فائلیں دی گئی ،ہم نے یہی سوچا چلیں نام ہو جائے گی لیکن نام نہیں کی گئی۔
تھیم پارک سوسائٹی کے سیلاب متاثرین کو چونگ میں الخدمت کی جانب سے قائم عارضی خیمہ بستی میں رہائش دی گئی ہے۔ سوسائٹی کے کسی بھی رکن کو نہ رجسٹری دی گئی اور نہ ہی انتقال کیا گیا۔ سب کا ایک ہی شکوہ ہے کہ ہمیں سوسائٹی کی طرف سے دھوکا دیا گیا ہے، کیونکہ نہ تو ہمارے پلاٹ ہمارے نام پر لگائے گئے اور نہ ہی دریائے راوی کے کنارے ہونے کے باوجود کوئی حفاظتی بند تعمیر کیا گیا۔

سیلاب نہ کسی کے گھر کو دیکھتا ہے اور نہ جھونپڑی کو، یہ اپنی موجوں سے راستہ بناتا ہوا تباہی مچاتا چلا جاتا ہے۔ دکھ اس بات کا ہے کہ سیلاب آنے سے پہلے حکومتی عہدیداران کو آگاہ نہیں کیا گیا، تو ایسے میں متاثرین اپنے مال و متاع اور بچوں کو کیسے بچا سکتے ہیں؟
محمد منیر کا کہنا ہے کہ ہمیں سیلاب سے کسی بھی طرف آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ پانی آنے والا ہے اپنا سامان لے کر نقل مکانی کر لیں، اگر ایک دو دن پہلے بتا دیا جائے کہ آپ چلے جائیں تو ہم آسانی سے اپنا سامان وغیرہ نکال کر لے جاتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جب سیلاب آیا میں مزدوری کے لیے گیا ہوا تھا ، کیونکہ میرے پاس اور کوئی سہارا نہیں ہے ، اگر مزدوری پر نہ جاؤ تو میرے بچے بھوکے سوئے گئے، انہی حالات کی وجہ سے میں گھر کو اللہ کے نام پر چھوڑ کو نکل جاتا ہوں ، لیکن جب میں مزدوری سے واپس آیا تو بہت دیر ہو چکی تھی اور میرے گھر میں چار سے پانچ فٹ تک پانی داخل ہو چکا تھا اور مجھے اپنے سامان کو نکالنے کے لیے فوج نے اجازت نہ دی ۔
سیلاب آنے کے بعد کسی بھی شہری کو متاثرہ علاقے میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ، اسی طرح جب محمد منیر مزدوری چھوڑ کر واپس آیا تو اسے بھی فوج اور ریسکیو اہلکاروں کی طرف سے جانے کی اجازت نہ دی گئی جس وجہ سے برسوں کی کمائی راوی کی موجوں میں بہہ گئی۔

محمد منیر نے بتایا کہ میں نے اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لیے جہیز بنایا تھا لیکن صورتحال سے نہ واقف ہونے کی وجہ سے وہ سارا کا سارا سامان پانی میں بہہ گیا ہے، ہمیں صورتحال سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا ، ہمارے گھروں میں پانی آنے سے آدھا گھنٹا پہلے ہمیں اطلاعات دی گئی ، مگر آدھے گھنٹے میں اپنا سامان کس طرح سے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جا سکتے تھے۔
آج وہ اور ان جیسے ہزاروں خاندان ریلیف کیمپوں میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ نہ پیسے ہیں، نہ کاروبار، نہ ہی روزگار۔ بارشوں کی وجہ سے مزدوری بھی بند ہے۔ بچے روتے ہیں اور بار بار ایک ہی سوال کرتے ہیں: “بابا ہمارا گھر کہاں ہے؟” منیر کہتے ہیں کہ وہ اکثر سوچتے ہیں کہ اپنی زندگی ہی ختم کر دیں کیونکہ نہ آگے کوئی راستہ ہے نہ پیچھے کوئی سہارا۔
اسی طرح صادق آباد سے فیاض احمد نے بھی روزگار کی تلاش میں لاہور کا رخ کیا،مزدوری کر کے راوی کے کنارے اپنی چھت بنائی، مگر اسے کیا معلوم تھا کہ یہ چھت بھی راوی کی بے رحم موجوں کی نذر ہو جائے گی ، وہ اب بھی سوال کرتا ہے کہ آخر غریب کے حصے میں ہمیشہ بربادی ہی کیوں آتی ہے؟

فیاض احمد نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آئس کریم کی دوکان پر کمیشن کے طور پر کام کرتا ہوں ، میں نے اپنی مزدوری سے اپنی بہن کے لیے جہیز بنایا تھا اور میری بہن کی ربیع الاول کے آخری ہفتے میں شادی تھی ۔
فیاض کا کہنا ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے وقت پر آگاہ نہ کرنے کہ وجہ سے ہمارا نقصان ہوا اگر پہلے بتا دیا جاتا تو ہم اپنے سامان کا انتظام کر لیتے ۔
یہ صرف ایک یا دو خاندانوں کی نہیں بلکہ ان لاکھوں لوگوں کی کہانی ہے جو سیلاب، غربت اور دھوکے کے درمیان پس رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ غریب جو اپنی محنت سے چھت بناتے ہیں، وہ کب تک محض فائلوں اور جھوٹے وعدوں کے سہارے زندہ رہیں گے؟