پاکستان میں پیکا ایکٹ کی حالیہ ترامیم کا معاملہ نہ صرف قومی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی زیرِ بحث ہے۔
حکومت پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ سیاسی مفادات کے تحت ایسی متنازعہ قانون سازی کر رہی ہے جو نہ صرف عدلیہ کو قابو کرنے کی کوشش ہے بلکہ آزادیِ اظہار کو بھی محدود کر رہی ہے۔
پاکستان کی صحافتی تنظیمیں اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی پیکا ایکٹ میں ترامیم کو سختی سے رد کر چکی ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے تو پیکا ایکٹ کو چیلنج کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
صدر ہائی کورٹ بار کا کہنا ہے کہ اس ترمیمی ایکٹ کا مقصد صرف صحافیوں کی آزادی کو کچلنا ہے اور یہ ایک ‘کالا قانون’ ہے جو آزادیِ اظہار کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔

(فائل فوٹو)(گوگل)
دوسری طرف حکومت کا موقف یہ ہے کہ یہ قانون سوشل میڈیا پر بڑھتی ہوئی نفرت انگیز اور جھوٹی اطلاعات کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس پر کسی قسم کا کنٹرول نہیں ہے۔
حکومت کا یہ کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیے اداروں اور ملک کے خلاف مواد پھیلانے میں مصروف ہیں اور ان کی کارروائیوں کو روکنا انتہائی ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون کی آڑ میں حکومت سچائی کے راستے پر بندشیں لگا رہی ہے؟
اس قانونی بحران کا سب سے بڑا اثر پاکستان کے عالمی تعلقات پر پڑ رہا ہے۔ یورپی یونین نے اس قانون پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے حوالے سے سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں۔
جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے پاکستان کو یورپی منڈیوں میں ڈیوٹی فری رسائی حاصل ہے جس سے پاکستانی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
اگر پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس متاثر ہوتا ہے تو یہ ملکی معیشت کے لیے ایک سنگین دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔
پاکستان کی حکومت بار بار یہ وضاحت دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ پیکا ایکٹ آزادیِ اظہار کو محدود نہیں کرتا بلکہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی اور جھوٹے مواد کو روکنے کے لیے ہے۔تاہم، یہ وضاحتیں حکومت کے حامیوں کے علاوہ کسی کو بھی قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

(فائل فوٹو)(گوگل)
ایک طرف صحافتی تنظیمیں احتجاج کر رہی ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی اس ایکٹ کو حکومت کی مخالف آوازوں کو دبانے کی ایک کوشش قرار دے رہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اس وقت سوشل میڈیا کے ذریعے بے شمار سیاسی اور سماجی موضوعات پر بحث ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا ایک طاقتور ذریعہ فراہم کیا ہے۔
پیکا ایکٹ کے ذریعے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مزید کنٹرول لانے کی کوششوں سے لوگوں میں یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ حکومت سچائی کو چھپانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پیکا ایکٹ میں ترمیمی بل کے مطابق ایک نئی اتھارٹی قائم کی جائے گی جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز کی نگرانی کرے گی۔
یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے گی اور پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کی مجاز ہوگی۔
اگرچہ حکومت نے اس اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کی پیشکش کی ہے تاہم صحافتی برادری اب بھی اس قانون کو آزادیِ اظہار پر حملہ تصور کرتی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ایکٹ سوشل میڈیا پر بے قابو اور انتشار پھیلانے والے مواد کو روکنے کے لیے بنایا گیا ہے لیکن یہ بات بھی اہم ہے کہ سوشل میڈیا پر حکومت کی بڑھتی ہوئی نگرانی اور کنٹرول کے بارے میں شکوک و شبہات میں اضافہ ہو چکا ہے۔
انٹرنیٹ کی سست روی اور سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیاں نہ صرف عوام کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہیں بلکہ یہ سوالات بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا حکومت نے جان بوجھ کر انٹرنیٹ کی رفتار سست کر دی ہے تاکہ سوشل میڈیا پر موجود مخالف آوازوں کو دبایا جا سکے؟

(فائل فوٹو)(گوگل)
پیکا ایکٹ کی قانونی شکل اختیار کرنے کے بعد اب یہ دیکھنا یہ ہوگا کہ پاکستان میں آزادیِ اظہار کے حق میں چلنے والی تحریکیں کس حد تک کامیاب ہوتی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اس ایکٹ کو چیلنج کرے گا، یہ ایک بہت بڑا سیاسی اقدام ہے جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اس معاملے پر صرف صحافتی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ قانونی حلقے بھی حکومت کی قانون سازی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہ بحران ایک طرف ملکی سیاست میں گہرا اثر ڈالے گا تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
حکومت کو نہ صرف اندرونی سطح پر بلکہ عالمی برادری کی طرف سے بھی دباؤ کا سامنا ہے، اور یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
اگر پیکا ایکٹ کے خلاف مزاحمت بڑھتی ہے تو اس کے نتائج پاکستان کے لیے سنگین ثابت ہو سکتے ہیں۔
یہ ایک قانونی جنگ کا آغاز ہے، اور آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اس جنگ کا رخ کہاں جاتا ہے اور پاکستان کی عالمی پوزیشن کس طرح متاثر ہوتی ہے۔