Follw Us on:

ذرا سوچیے، پانی کا قہر، زندگیاں بکھرتی رہیں

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

یہ کیسا موسم ہے کہ بارش کا پہلا قطرہ خوشی دیتا ہے اور پھر اگلے ہی لمحے وہی پانی زندگیوں کو ڈبو دیتا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے میدان آج بھیگے نہیں، ڈوبے ہوئے ہیں۔ کچے مکانوں کی دیواریں گر چکی ہیں، کھڑی فصلیں زمین میں دفن ہو چکی ہیں اور لاکھوں انسان کھلے آسمان تلے بے یار و مددگار کھڑے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ قدرتی آفات انسان کو عاجزی سکھاتی ہیں، مگر اس بار کے سیلاب نے یہ بھی دکھا دیا کہ پڑوسیوں کی بے حسی اور ریاستی کمزوریاں مل کر کس طرح ایک قدرتی آفت کو انسانی المیہ بنا دیتی ہیں۔ بھارت کی جانب سے اچانک چھوڑے گئے ہزاروں کیوسک پانی نے لمحوں میں وہ اجاڑ دیا جسے بنانے میں نسلیں لگ گئی تھیں۔

قصور سے لے کر بہاولنگر اور مظفرگڑھ تک جہاں تک نگاہ جاتی ہے پانی ہی پانی ہے۔ دریائے ستلج اور راوی کے کنارے آباد بستیاں اب نقشے پر رہ گئی ہیں، حقیقت میں وہاں مٹی، پانی اور خاموشی ہے۔ لوگ اپنی چھتوں پر بیٹھے کشتیاں دیکھتے ہیں کہ شاید کوئی ان تک پہنچ جائے۔ کھڑی فصلیں کپاس، گنا اور مکئی جو کسانوں کی سال بھر کی محنت کا پھل تھیں، سب پانی میں بہہ گئیں۔

وہ کسان جن کی آنکھوں میں نئی فصلوں کے خواب تھے، آج ہاتھوں میں صرف مٹی کی لپیٹ لیے بیٹھے ہیں۔ گاؤں کی گلیوں میں اب ہنسی کی آواز نہیں، صرف پانی کی چھپ چھپ اور عورتوں کے بین سنائی دیتے ہیں۔ کے پی کے پہاڑ بھی اس بار خاموش نہیں رہے۔ سوات، چارسدہ، نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ندی نالے پہاڑوں سے اترے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا لے گئے۔

لوگ بتاتے ہیں کہ پانی نے کسی کو سوچنے کا موقع تک نہ دیا، پورے کے پورے گاؤں چند لمحوں میں صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ زمین کھسکی، سڑکیں ٹوٹ گئیں، اور پہاڑوں نے راستے بند کر دیے۔ جو بچے، عورتیں اور بزرگ بچ نکلے وہ آج کھلے میدانوں میں بیٹھے ہیں، جہاں ان کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے نہ پینے کو

یہ صرف اعداد و شمار نہیں، یہ لاکھوں کہانیاں ہیں۔ ایک ماں جو اپنے بچے کی لاش پانی سے نکالتی ہے، ایک باپ جو اپنے کھیت ڈوبتے دیکھتا ہے اور ایک بچہ جو بار بار پوچھتا ہے کہ ہمارا گھر کہاں گیا۔ کھلے آسمان تلے لوگ بارش میں بھیگتے ہیں، دھوپ میں جھلستے ہیں۔ گندے پانی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ ہیضہ، بخار اور کھانسی عام ہو گئی ہے۔ دوا ہے نہ ڈاکٹر۔ امدادی کیمپ ہیں مگر متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ سب کو سہارا ملنا ممکن ہی نہیں۔

قدرتی آفت کے ان دنوں میں قوم کو یکجا ہونا چاہیے تھا، لیکن ہماری سیاست اپنی پرانی ڈگر پر ہی چلتی رہی۔ ایک طرف پانی میں ڈوبتے لوگ مدد کے منتظر ہیں، دوسری طرف سیاستدان ایک دوسرے پر الزام تراشی میں مصروف ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وفاق ذمہ دار ہے، کوئی صوبوں پر ملبہ ڈالتا ہے۔ جلسوں میں نعرے گونجتے ہیں مگر متاثرین کے خیمے خالی رہتے ہیں۔

یہ المیہ ہے کہ ہم نے اپنی سیاست کو خدمت کے بجائے اقتدار کی کشمکش میں قید کر دیا ہے۔ عوام ڈوب رہے ہیں مگر ایوانوں میں بحث اس بات پر ہوتی ہے کہ کس کی حکومت گرائی جائے اور کس کی بچائی جائے۔ یہ طرزِ عمل ہماری اجتماعی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ سیلاب نے ہمیں ایک اور آئینہ دکھایا ہے: ہم ایک قوم نہیں بلکہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے لوگ ہیں۔ امدادی سامان آتا ہے تو پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کس کی پارٹی ہے، کس کا تعلق کس علاقے سے ہے۔

متاثرین کی فہرست میں بھی ترجیحات سیاسی وابستگی کے مطابق طے کی جاتی ہیں۔ ہم نے اجتماعی سطح پر اپنی انسانیت کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ مصیبت کے اس وقت میں ہم سب ایک دوسرے کا سہارا بنتے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تقسیم کی خلیج مزید گہری ہو گئی ہے۔ سیلاب صرف گھروں اور کھیتوں کو نہیں بہا کر لے گیا، یہ ہمارے اخلاقی نظام کی کمزوری بھی عیاں کر گیا ہے۔

کئی جگہوں پر امدادی سامان ذخیرہ کیا گیا، بیچا گیا یا بااثر افراد نے زبردستی ہتھیا لیا۔ کچھ لوگوں نے مظلوموں کی مجبوری کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنایا۔ خیموں اور راشن کی بلیک مارکیٹنگ، دواؤں کی قلت اور ٹرانسپورٹ کے نرخوں میں اضافہ سب ہماری اجتماعی بدحالی کی تصویر ہیں۔ یہ سب اس وقت ہوا جب بچے بھوکے تھے اور مائیں بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ یہ منظر ہماری اجتماعی اخلاقیات پر سوالیہ نشان ہیں، رہی سہی کسر ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز نے نکال دی۔


یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ بھارت نے کیوں اچانک پانی چھوڑا؟ کیوں ہر سال برسات کے موسم میں یہی کھیل دہرایا جاتا ہے؟ سندھ طاس معاہدہ ہونے کے باوجود بھارت کا رویہ غیر سنجیدہ ہے۔ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا نہ صرف غیر اخلاقی ہے بلکہ انسانی المیے کو بڑھانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کو یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھانا ہوگا، ورنہ آنے والے برسوں میں یہ کہانیاں اور بھی زیادہ دردناک ہو جائیں گی۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کب تک ہم صرف ریسکیو آپریشن کرتے رہیں گے؟ کب تک لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوتے رہیں گے؟

اس مسئلے کا حل بڑے ڈیموں کی تعمیر، جدید وارننگ سسٹم، مضبوط انفراسٹرکچر اور کسانوں کے لیے مالی پالیسیوں میں ہے۔ ساتھ ہی ہمیں اپنی سیاست کو بھی بدلنا ہوگا۔ سیاست اگر خدمت کے بجائے ذاتی مفاد کے لیے ہو تو قدرتی آفات مزید بھیانک بن جاتی ہیں۔ ہمیں اپنی تقسیم کو ختم کر کے انسانیت کو مقدم رکھنا ہوگا۔ معاشرتی اخلاقیات کی بحالی اور شفاف نظامِ امداد ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ پانی کا بہاؤ تھم جائے گا، زمین سوکھ جائے گی، لیکن ان آنکھوں کے آنسو کب خشک ہوں گے جو اپنے پیاروں کو کھو چکی ہیں؟ یہ سوال ہم سب کے لیے ہے۔ سیلاب کے یہ منظر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم کتنا بے بس ہیں اور ہمیں مل کر کتنا کچھ بدلنے کی ضرورت ہے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس