پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور آئینی بنچ کے سربراہ جسٹس امین الدین کو ایک خط لکھا ہے، جو 349 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس خط میں پاکستان کے آئینی نظام کی تباہی پر بات کی گئی ہے۔
اس خط میں نہ صرف انسانی حقوق کی پامالیوں بلکہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق عمران خان کے خط میں ایک طرف جہاں انتخابات میں دھاندلیوں کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں وہیں دوسری طرف پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں، جسمانی تشویشات اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات بھی شامل ہیں۔
عمران خان نے اپنی اس تحریر میں دعویٰ کیا ہے کہ نومبر 2024 کے آخر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی بڑی تعداد کو گرفتار کیا گیا تھا اور اسپتالوں کے ریکارڈز کو سیل کرکے بعد میں ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔
عمران خان نے اپنی تحریر میں عدالت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “جو ادارہ انصاف فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے وہ خود انصاف کی تلاش میں ہے”۔
انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عدلیہ نے انتخابات میں دھاندلیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف متعدد درخواستوں پر کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی۔
خط میں عمران خان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کے خلاف ریاستی جبر کی تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔
ان کے مطابق یہ کارکنان جبری گمشدگیوں کا شکار ہوئے اور انہیں تشویشات کا سامنا کرنا پڑا اور کئی کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔
عمران خان نے واضح طور پر کہا کہ موجودہ حکومت نے انتخابی دھاندلی اور تاریخی دھاندلیوں کے ذریعے اقتدار میں آ کر پی ٹی آئی کو جبر کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ جس کا عمران خان نے ذکر کیا، وہ ان کی اپنی گرفتاری تھی۔ انہوں نے 9 مئی 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت سے غیر قانونی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس گرفتاری کو جان بوجھ کر ٹی وی اور سوشل میڈیا پر نشر کیا گیا تاکہ عوامی غصے کو بھڑکایا جا سکے۔
عمران خان نے کہا کہ جب وہ ریاستی جبر کے خلاف ہائی کورٹ میں پناہ لینے گئے تو ان پر حملہ کیا گیا، اور بعد میں سپریم کورٹ نے اس آپریشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
عمران خان نے مزید الزام عائد کیا کہ ان کے خلاف پرامن احتجاجوں کو ناکام کرنے کے لئے تشدد کو بڑھایا گیا اور ان احتجاجوں میں خفیہ طور پر انارکی پھیلانے والے افراد کو شامل کیا گیا۔
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش پر بھی عمران خان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شبلی فراز نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کوئی کمیٹی بنانا حل نہیں ہے۔
انہوں نے وزیراعظم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت سنجیدہ تھی تو مذاکرات کے لیے کمیٹی پہلے ہی بن چکی ہوتی۔
عمران خان نے اپنے خط میں ایک اور اہم معاملے کی طرف بھی اشارہ کیا، جو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی شکایت سے متعلق تھا جس میں انہوں نے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے عدلیہ کے معاملات میں مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔
عمران خان نے اس معاملے کو ‘انتہائی سنجیدہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کے آزادی کی حفاظت کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

خط کے اختتام پر عمران خان نے چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام مسائل پر فوری طور پر کارروائی کریں اور پاکستان کے آئین کی پامالی کرنے والوں کو سزا دیں تاکہ عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہو سکے۔
عمران خان نے کہا کہ “اگر سپریم کورٹ نے ان مسائل پر کارروائی نہ کی تو ملک آئینی بحران کی طرف مزید بڑھ جائے گا اور ہم ایک ایسی صورتحال میں پہنچ جائیں گے جہاں ‘طاقت ہی درست ہے’ کا قانون رائج ہوگا۔“
آخرکار عمران خان نے چیف جسٹس کو یاد دلایا کہ اس وقت قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے کہ آیا وہ پاکستان کے آئین اور عدلیہ کی آزادی کے اصولوں پر عمل کریں گے یا یہ صرف لفظی باتیں ہوں گی۔
یہ خط پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک اہم موڑ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز اس پر کس طرح ردعمل دیتے ہیں۔
یہ معاملہ اب صرف پی ٹی آئی یا عمران خان کا نہیں، بلکہ پورے ملک کے آئین اور عدلیہ کے مستقبل کا سوال بن چکا ہے۔