اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر پوسٹ ایک بیان میں، ٹرمپ نے اعلان کیاہے کہ اگر کوئی ملک اپنی تجارت مین امریکی ڈالر کی بجائے کوئی اور کرنسی استعمال کرتا ہے تو اسے امریکا کی جانب سے سو فیصد ٹیکس کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ” اگر برکس کے ممبرز ممالک کسی طرح کی دوسری کرنسی میں تجارت کرتے ہیں تو ان کی تجارت پر سو فیصد ٹیکس لگایا جائے گا”۔
“ہمیں ان بظاہر دشمن ممالک سے اس نیت کی ضرورت ہے کہ وہ عظیم امریکی ڈالر کو تبدیل کرنے کے لیے نہ تو کوئی نئی برکس کرنسی بنائیں گے اور نہ ہی کوئی دوسری کرنسی استعمال کریں گے، یا پھر انہیں سو فیصد محصولات کا سامنا کرنا ہوگا”۔
ٹرمپ نے مزید اس بات پر زور دیا کہ برکس کو ڈالر کے متبادل تلاش کرنے کی اجازت دینے کا دور ختم ہوچکا ہےخبردار کیا کہ کوئی بھی ملک جو اس طرح کے اقدام کی کوشش کرے گا اسے ٹیرف کو ہیلو اور امریکہ کو الوداع کہنا پڑے گا۔

برکس دس ممالک کی عالمی تنظیم ہے جو سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے ممبرز ممالک کے مفاد کے لیے کام کرتی ہے۔ ابتدائی ممبرز ممالک میں برازیل، روس، چین، انڈیا اور جنوبی افریکا شامل ہیں۔ یہ اتحاد 16 جون 2009 کو قیام میں آیا۔ 2024 میں اس اتحاد کی توسیع کی گئی جس میں اتحادی ممالک کی نئی کیٹیگری شامل کی گئی ۔ ان اتحادی ممالک میں بیلاروس، بولیویہ، قازکستان، کیوبا، ملائیشیا، تھائی لینڈ اور اُزبیکستان شامل ہیں۔
برکس کی جانب سے نئی کرنسی متعارف کروانے کی بحث کافی عرصے سے جاری ہے۔ چوں کہ اس گروپ میں روس بھی شامل ہے اور روس اور یوکرین کے مابین جنگ کی وجہ سے روس پہلے ہی امریکی پابندیوں کا شکار ہے۔ اس لیے روس امریکی ڈالر کو تبدیل کر کے نئی کرنسی استعمال کرنا چاہ رہا ہے تا کہ اسے نقصان کم سے کم ہو۔
ٹرمپ کی بیان کے جواب میں انڈین وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ انڈیا نے کبھی بھی امریکی ڈالر کی مخالفت نہیں کی۔
روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے جواب دیا کہ برکس ڈالر کو نہیں چھوڑ رہا ہے بلکہ واشنگٹن کی غلط پالیسیوں کے مطابق کام کر رہا ہے۔