امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو ’آخری وارننگ‘ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کو قبول کیا جائے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے اتوار کو سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ اسرائیل نے ان کی شرائط مان لی ہیں، اب حماس بھی انہیں تسلیم کرے۔ ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹرمپ نے اس نوعیت کی وارننگ دی ہو۔ مارچ کے اوائل میں بھی انہوں نے حماس کو اسی طرح کا الٹی میٹم دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں آٹھ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد ان سے ملاقات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ باقی یرغمالیوں کو بھی فوری طور پر آزاد کیا جائے اور جو ہلاک ہو چکے ہیں ان کی باقیات واپس کی جائیں، ورنہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔
واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں عسکریت پسندوں نے 251 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا تھا۔ بعد میں کچھ افراد کو معاہدوں کے تحت رہا کیا گیا، تاہم اسرائیلی حکام کے مطابق اب بھی 47 یرغمالی زندہ حالت میں غزہ میں موجود ہیں۔
اسرائیلی فوج کا یہ بھی کہنا ہے کہ 25 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں اور ان کی باقیات کی واپسی ضروری ہے۔

صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز کہا تھا کہ امریکا حماس کے ساتھ مذاکرات پر سنجیدگی سے کام کر رہا ہے لیکن خدشہ ہے کہ مزید یرغمالی مارے جا سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کو فوراً رہا کیا جائے ورنہ نتائج بہت برے ہوں گے۔
ادھر اسرائیل نے اتوار کو غزہ کی ایک رہائشی عمارت پر بمباری کی، جو وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس اعلان کے بعد تیسرا حملہ تھا کہ غزہ کے اہم شہری مراکز پر کارروائیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔
ایک روز قبل اسرائیلی شہریوں نے تل ابیب میں مظاہرہ کیا تھا اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ غزہ شہر پر قبضے کے فیصلے کو واپس لیا جائے کیونکہ اس سے یرغمالیوں کی جانوں کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اسی دوران تل ابیب میں جمعے کو حماس کی قید میں 700 دن مکمل ہونے پر یرغمالیوں کے اہل خانہ اور شہریوں نے احتجاجاً پیلے رنگ کے غبارے فضا میں چھوڑے۔
اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کے حملے میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ دوسری جانب غزہ کے محکمۂ صحت، جو حماس کے زیر انتظام ہے، کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جوابی کارروائیوں میں اب تک 64 ہزار 368 فلسطینی جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔ اقوام متحدہ بھی ان اعداد و شمار کو قابلِ اعتماد قرار دیتا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق غزہ میں پابندیوں اور رسائی کی مشکلات کے باعث دونوں فریقوں کی فراہم کردہ معلومات کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہے۔