Follw Us on:

’میں مر جاؤں گا‘، افغان زلزلہ متاثرین کا آفٹر شاکس کے ڈر سے اپنے گھر جانے سے انکار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Aghan earthquake
یکم ستمبر کو آنے والے دو زلزلوں نے پورے خطے میں 2,200 سے زائد افراد کی جان لے لی۔ (فوٹو: رائٹرز)

افغانستان میں آنے والے ہلاکت خیز زلزلوں کے بعد متاثرین اس خوف میں مبتلا ہیں کہ آفٹر شاکس کسی بھی وقت پہاڑوں سے چٹانیں گرا سکتے ہیں، اسی لیے وہ تباہ شدہ دیہات واپس جانے کے بجائے کھلے میدانوں اور دریا کنارے قیام پر مجبور ہیں، چاہے بارش سے بچنے کے لیے ان کے پاس خیمے بھی نہ ہوں۔

صوبہ کنڑ کے گاؤں مسعود میں اپنی بوسیدہ لاٹھی کے سہارے کھڑے 67 سالہ کسان آدم خان نے بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی پناہ گاہ نہیں، حتیٰ کہ ایک خیمہ بھی نہیں۔ کل رات بارش ہوئی، ہمارے پاس چھپنے کی کوئی جگہ نہ تھی۔ سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ کسی بھی وقت بڑی چٹانیں گر سکتی ہیں۔

یکم ستمبر کو آنے والے دو زلزلوں نے پورے خطے میں 2,200 سے زائد افراد کی جان لے لی جبکہ 3,600 سے زیادہ زخمی ہوئے۔

ہزاروں گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے اور آفٹر شاکس نے مزید لینڈ سلائیڈنگ پیدا کی، جس کے باعث کئی خاندان غیر محفوظ پہاڑوں اور بپھرے دریاؤں کے درمیان پھنس گئے۔

Aghan earthquake.
امدادی تنظیموں نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے خوراک اور سامان پہنچانے کی کوشش کی، مگر متاثرین کے مطابق مدد سست اور ناکافی ہے۔ (فوٹو: رائٹرز)

امدادی تنظیموں نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعے خوراک اور سامان پہنچانے کی کوشش کی، مگر متاثرین کے مطابق مدد سست اور ناکافی ہے۔

غربت اور کمزور بنیادی ڈھانچے نے دور دراز دیہات کو سڑکوں سے کئی گھنٹے کے فاصلے پر کاٹ دیا ہے، جبکہ زیادہ تر کچے گھروں نے زلزلے کی پہلی جھٹکوں پر ہی ہتھیار ڈال دیے۔ اب خاندان عارضی کیمپوں میں جمع ہیں۔

گاؤں شہیدان کے 40 سالہ کسان شمس الرحمٰن نے بتایا کہ انہوں نے اپنے چھ رشتہ دار کھو دیے اور خاندان کے نو افراد کو لے کر نیچے آئے۔

وہ سڑک کے کنارے اپنے چند سامان کے ساتھ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں۔ “جو خیمے دیے گئے ہیں، ان میں ہمارے بچے بھی نہیں سماسکتے۔ پہاڑ سے اترتے وقت میرے بیٹے کے پاس جوتے نہیں تھے، تو میں نے اپنے جوتے اس کے ساتھ باری باری بانٹے۔”

Aghan earthquake..
بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ناکافی پناہ گاہ، صفائی اور خوراک کی کمی اس بحران کو مزید خطرناک بنادے گی۔ (فوٹو: رائٹرز)

کئی متاثرین کے لیے یہ بے دخلی مستقل دکھائی دیتی ہے۔ 51 سالہ گل احمد نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا، “اب ہم واپس نہیں جائیں گے۔

چاہے زلزلہ نہ بھی ہو، ایک عام بارش ہی چٹانیں گرا سکتی ہے۔ حکومت کو ہمیں نئی جگہ دینی ہوگی۔

بین الاقوامی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ ناکافی پناہ گاہ، صفائی اور خوراک کی کمی اس بحران کو مزید خطرناک بنادے گی اور بیماری و غربت کو پھیلا سکتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جو دنیا کے سب سے غریب اور زلزلہ خیز خطوں میں شمار ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ متاثر بچے ہیں۔ 12 سالہ صادق، جو 11 گھنٹے ملبے تلے دبے رہنے کے بعد زندہ نکالا گیا، اپنی دادی اور کزن کی موت کا گواہ بنا۔

رسی کے پلنگ پر خاموش بیٹھے اس نے صرف اتنا کہا: “میں نے سوچا تھا کہ میں مر جاؤں گا۔ یہ قیامت کا منظر لگ رہا تھا۔”

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس