حال ہی میں فتنہ الخوارج کے سرغنہ نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو منظر عام پر آئی ہے، جس میں اُس نے اپنے دہشت گردوں کو موبائل فون استعمال کرنے پر سخت پابندی عائد کر دی ہے۔
اس بات نے نہ صرف سکیورٹی فورسز کو متحرک کیا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس انکشاف نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کے خاتمے کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
ذرائع کے مطابق نور ولی محسود نے اپنے پیروکاروں کو ایک خفیہ پیغام بھیجا جس میں انہوں نے تمام مجاہدین کو موبائل فون استعمال کرنے سے گریز کرنے کی ہدایات دیں۔
اس پیغام میں کہا گیا تھا کہ “موبائل سادہ ہو یا انٹرنیٹ والا، کسی کو بھی اس کے استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی، ضرورت پڑنے پر موبائل استعمال کریں، مگر فوراً بند کر دیں اور پھر اس سے دور رہیں۔”
اس پابندی کا مقصد واضح طور پر یہ تھا کہ فتنہ الخوارج کی قیادت کی سرگرمیاں اور دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو سکیورٹی فورسز سے چھپایا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ فیصلہ ایک سنگین مرحلے پر لیا گیا جب فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ ایک کے بعد ایک دہشت گرد کی موت نے قیادت کو اپنے دفاعی تدابیر مزید سخت کرنے پر مجبور کر دیا۔

سکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات دہشت گردوں کی مسلسل ہلاکتوں کی وجہ سے کیے گئے ہیں تاکہ ان کے مواصلاتی ذرائع کو مکمل طور پر محفوظ رکھا جا سکے۔
نور ولی محسود کی خفیہ گفتگو میں مزید کہا گیا کہ “ہماری چھان بین ہو رہی ہے اور ہم پر نظر رکھی جا رہی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ کوئی بھی بغیر ضرورت کے موبائل کا استعمال نہ کرے۔”
یہ گفتگو ظاہر کرتی ہے کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اس وقت اپنے تنظیمی نیٹ ورک کی حفاظت میں شدید مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔
دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی کا مقصد دہشت گردوں کے مواصلاتی نظام کو مکمل طور پر خفیہ رکھنا ہے، تاکہ ان کی سرگرمیوں پر سکیورٹی فورسز کی نگرانی مزید موثر ہو سکے۔
اس کے علاوہ ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ یہ اقدامات اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ ان کے اثرات بھی دکھائی دے رہے ہیں۔
اس سے قبل بھی فتنہ الخوارج نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مختلف اقدامات کیے تھے تاہم موبائل فون کی اس نئی پابندی نے ظاہر کر دیا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں اب سکیورٹی فورسز کی نظر سے بچنا مزید مشکل ہو گئی ہیں۔

فائل فوٹو/گوگل
یہ تمام واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ فتنہ الخوارج کی قیادت اپنی صفوں میں جاری ہلاکتوں سے بے چین ہو چکی ہے اور اس نے اپنے دہشت گردوں کی محفوظ رہنے کی تمام تدابیر بڑھا دی ہیں۔
اس سے نہ صرف ان کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے، بلکہ سکیورٹی فورسز کے لیے بھی نئے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔
اب یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ سکیورٹی فورسز ان اقدامات کا کس طرح مقابلہ کرتی ہیں اور فتنہ الخوارج کی اس نئی حکمت عملی کو ناکام بناتی ہیں۔