اسلام آباد میں منعقدہ کشمیر کانفرنس کے دوران جماعتِ اسلامی نے کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک کروڑ ای میلز بھیجنے کی مہم کا آغاز کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے بذاتِ خود ای میل کر کے مہم کا باضابطہ آغاز کیا، جس کے بعد سینیئر سیاستدان مشاہد حسین سید سمیت دیگر مندوبین نے بھی اقوام متحدہ کو ای میلز ارسال کیں۔
کانفرنس میں پاکستانی سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ حریت کانفرنس کی قیادت، سابق وزیرِاعظم آزاد کشمیر سردار عتیق اور بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط بھی شریک رہے۔ مقررین نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری کو بیدار کرنے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔
یہ مہم دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کو ای میلز بھیجنے کی ترغیب دے گی تاکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو مزید اجاگر کیا جا سکے۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے قومی کشمیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کی قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور یہ ایک نامکمل ایجنڈا ہے، جسے مکمل کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ اور تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والا خطہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی انتہا کر رکھی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ بھارت مسلسل کشمیریوں کی آواز دبا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے منظور شدہ قراردادوں کو بھی تسلیم نہیں کر رہا۔
انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہیے اور ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ جماعت اسلامی مسلسل کشمیر کا مقدمہ حکومت کے سامنے رکھے گی۔
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے قومی کشمیرکانفرنس سے اختتامی خطاب میں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم ڈھایا جا رہا ہے،کشمیریوں کوظلم پرآوازاٹھانے پردبایا جارہا ہے، بھارت کشمیریوں کے ساتھ جو کررہا ہے وہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بھارت اپنے ہی شہریوں دلتوں سکھوں سمیت باقیوں کے ساتھ بھی امتیازی سلوک کر رہا ہے، سوڈان کا مسئلہ ہوتو فوری حل ہوجاتا ہے کشمیر پر اقوام متحدہ خاموش ہے، امریکہ اسرائیل کی مسلسل پشت پناہی کر رہا ہے۔
کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت صرف کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی، کشمیریوں کو اپنی آزادی کیلیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ دے چکی ہے، کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق بھی اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے۔
’کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق اقوام متحدہ کا چارٹردیتا ہے‘
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کی سربراہی میں انڈیا اور پاکستان نے قرارداد منظور کی، جس میں کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کا فیصلہ ان کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا، لیکن انڈیا اس قرارداد سے مکر گیا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان اب تک 17 قراردادیں ہوچکی ہیں، جن کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہو سکا۔
انڈیا اقوامِ متحدہ کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کر رہا ہے اور کشمیریوں کے حقوق کی مسلسل پامالی کررہا ہے۔اب وقت کی ضرورت ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو ایک بار پھر عالمی سطح پر لے جایا جائے اور کشمیریوں کے حق کے لیے آواز اٹھائی جائے۔
کشمیریوں کی اخلاقی و سیاسی حمایت صرف کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی، کشمیریوں کو اپنی آزادی کیلیے لڑنے کا حق اقوام متحدہ دے چکی ہے، کشمیریوں کو عسکری مزاحمت کا حق بھی اقوام متحدہ کا چارٹر دیتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر بھی بزور شمشیر ہی آزاد ہوگا،فلسطین کی مثال طاقت کے بغیر مذاکرات نہ ہونا ثابت ہوچکی ہے، سات اکتوبر کے طوفان الاقصٰی آپریشن نے اسرائیل کو مذاکرات پر مجبور کیا،حماس کے اقدامات نے فوجی ماہرین کو ناکام ثابت کیا ہے۔
بھارت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں، عالمی قوانین کشمیریوں کو مسلح مزاحمت کی اجازت دیتے ہیں: مشاہد حسین
سینیٹر مشاہد حسین سید نے کشمیر کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اور اسرائیل ایک جیسے ہیں، دونوں نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ علاقوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی قوانین کے تحت کشمیریوں کو اپنی آزادی کے لیے مسلح مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ عالمی برادری کو فلسطین اور کشمیر کے مسائل پر دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور اسرائیل کی گٹھ جوڑ سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے، جس کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
مشاہد حسین سید نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ “ہمارے ہیروز بھارت کے ولن ہیں اور بھارت کے ہیروز ہمارے ولن ہیں۔” لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آج کچھ لوگ مودی کے ساتھ ایک صفحے پر آگئے ہیں، اور وہ محمود غزنوی کو لٹیرا اور احمد شاہ ابدالی جیسے عظیم مسلم ہیروز پر سوال اٹھاتے ہیں۔
ہم ہندوستان کے بارے میں اپنی پوزیشن بہت واضح رکھتے ہیں کہ ’ہندوستان اور اسرائیل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسرائیل گریٹر اسرائیل کا خواب دیکھتا ہے اور بھارت اکھنڈ بھارت کی بات کرتا ہے‘۔
یہ جو دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے، وہ ہمارے مجاہدین ہیں بلکہ حریت پسند ہیں، جنہوں نے اپنی آزادی کے لیے جنگ لڑی۔ اور یہ انٹرنیشنل قوانین کے مطابق ان کی مسلح جدوجہد جائز ہے، جس کی تائید خود چین نے 2024 میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کی۔ چینی مندوبین نے اس موقف کو عالمی سطح پر تسلیم کیا تھا اور تمام ممالک نے اس پر اپنے بیانات دیے تھے۔
قومی کشمیر کانفرنس میں نائب امیر جماعت لیاقت بلوچ، سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق خان ، آصف لقمان قاضی ، میاں محمد اسلم، عبداللہ گل، ڈاکٹر مشتاق خان ، عبدالرشید ترابی، رہنما پاکستان پیپلز پارٹی نیر بخاری اور مقبوضہ کشمیر سے رہنما غلام محمد صفی بھی شریک ہوئے۔
قراردادوں پر عمل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی قرار
قومی کشمیر کانفرنس کے اختتام پرمشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کا تنازع زمینی ہے اورنہ دو ملکوں کا ۔جموں و کشمیر کی آزادی، اس کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حق خودارادیت کا حصول اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا فوری خاتمہ ہمارے موقف اور بیانیہ کے نکات ہیں۔
جموں و کشمیر کے لوگوں سے حق خودارادیت کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن سات دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی انہیں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام رائے شماری کے ذریعہ ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ قومی کشمیر کانفرنس کے شرکا نے مسئلہ کشمیر پرقراردادوں پر عمل نہ ہونا اقوام متحدہ کی ناکامی قراردے دیا ۔
قومی کانفرنس نے سیاسی و سماجی قیادت کو قید میں ڈالنے، صحافیوں، میڈیا ورکرزاورسول سوسائٹی پر پابندیوں، سرچ آپریشن کے نام پرنوجوانوں کی گرفتاریوں، حراستی قتل، جائیدادوں کی ضبطی اور جبر کے دیگر طریقوں کی مذمت کی اوران کو ریاستی دہشت گردی کی سنگین کارروائیوں سے تعبیر کیا ۔

قومی کانفرنس نے کہا کہ سیاسی قیدیوں کی رہائی بشمول خواتین، بچوں اور انسانی حقوق کے محافظوں کو قابض طاقت کی من مانی مرضی پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
کانفرنس کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بشمول جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم، نسلی صفائی، اور نسل کشی کا جائزہ لینے کے لیے آزاد انسانی امدادی تنظیموں، اقوام متحدہ کے مبصرین، اوراو آئی سی کے آزاد مستقل انسانی حقوق کمیشن کو بلا روک ٹوک رسائی دی جائے۔
حکومت پاکستان سے ایک فعال کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ کانفرنس حکومت پاکستان پر زوردیا کہ قیدی حریت رہنما شبیر احمد شاہ ،محمد یاسین ملک ،عبدالحمید فیاض ،مسرت عالم، ڈاکٹر قاسم فکتو اور آسیہ اندرابی اور ان کی خواتین ساتھیوں کی رہائی کے لیے جدوجہد کرے اور ان کے وکلا کا اہتمام کرے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی پاکستان اور اس سے باہر (مثلاً برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ) میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا جا سکے، عالمی برادری پر زور دیا جائے کہ وہ ایسے مذموم، ریاستی سرپرستی میں ہونے والے اقدامات کا نوٹس لے۔