سویڈن کے شہر اویبرو کے ‘رسبرگسکا’ سکول میں آج ایک خوفناک فائرنگ کا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں تقریباً 10 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق اس المناک واقعہ کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے اور ابھی تک جو معلومات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق فائرنگ کرنے والے شخص کا ممکنہ طور پر خود بھی خاتمہ ہو چکا ہے۔
آج دوپہر بعد ‘رسبرگسکا’ سکول کے کیمپس میں اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ جیسے ہی آواز آئی سکول کے اساتذہ اور طلبہ نے فوراً ہنگامی طور پر اسکول سے باہر بھاگنے کی کوشش کی۔
سکول کے ایک ‘ماریا پیگادو’ نامی استاد نے بتایا کہ وہ اور ان کے 15 طلبہ جب کلاس روم سے باہر نکلے تو انہیں دو فائر کی آوازیں سنائی دیں۔ انھوں نے فوراً اپنے طلبہ کو اسکول کی عمارت سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ تاہم، وہ زخمی افراد کو دیکھ کر سمجھ گئے کہ معاملہ سنگین ہے۔
اوہریبرو کے مقامی پولیس چیف ‘رابرٹو ایڈ فورسٹ’ نے اس واقعے کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ “تقریباً 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں”۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اس فائرنگ کے واقعے کا ملزم پولیس کے لیے غیر معروف تھا اور ان کی تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں۔
فورسٹ کے مطابق یہ ممکنہ طور پر ایک اکیلا حملہ آور تھا اور ابھی تک کسی دہشت گردی کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔
پولیس کے مطابق حملہ آور کی شناخت ابھی تک واضح نہیں ہو سکی مگر یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ وہ خود بھی ہلاک ہو چکا ہو گا۔

(بی بی سی)
رابرٹو ایڈ فورسٹ نے مزید کہا کہ حملہ آور کے بارے میں جو بھی تفصیلات سامنے آئیں گی وہ فوراً عوام کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
ضرور پرھیں: شمالی کوریا کے فوجی روس-یوکرین محاذ سے واپسی پر مجبور، بھاری نقصان کی اطلاعات
فائرنگ کا واقعہ اتنا بھیانک تھا کہ پولیس نے بتایا کہ وہ واقعے کے بعد سے پورے علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کر رہے ہیں۔
اس فائرنگ میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں مقامی ہسپتال میں منتقل کیا گیا ہے۔
اوہریبرو یونیورسٹی ہسپتال کے حکام کے مطابق زخمیوں کی تعداد 6 ہے جن میں سے پانچ افراد کو گولیوں کے زخم آئے ہیں، جن میں سے 4 کی حالت تشویشناک ہے اور وہ سرجری سے گزر چکے ہیں۔
اسکول کیمپس میں اس وقت سراسیمگی کا عالم تھا جب چھ اسکولوں اور ایک ریسٹورنٹ کو فوراً لاک ڈاؤن کر دیا گیا۔
اس بات کی تصدیق بھی کی گئی ہے کہ اس واقعے میں کوئی بچہ زخمی نہیں ہوا جس پر لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ دوسری جانب پولیس نے علاقے کے تمام اسکولوں کو محفوظ قرار دیا اور اعلان کیا کہ مزید حملوں کا خدشہ نہیں ہے۔

(فائل فوٹو)
سویڈن کے وزیرِ اعظم ‘اُلف کرسٹر سون’ نے اس خونریز واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “آج سویڈن کے لیے بہت تکلیف دہ دن ہے۔”
انھوں نے مزید کہا کہ “میری ہمدردیاں ان لوگوں کے ساتھ ہیں جنہوں نے اس سانحے کا سامنا کیا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ بھی میری دعائیں ہیں۔”
اس واقعے نے پورے سویڈن کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ اسکول کے طلبہ اور اساتذہ نے اس واقعے کو دہشت کے طور پر بیان کیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد نے اس دن کو اپنی زندگی کا سب سے بھاری دن قرار دیا ہے۔
پولیس نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور حملہ آور کے مقاصد کا پتہ چلایا جائے گا۔
پولیس کے مطابق وہ اس وقت اپنے تمام وسائل کو اس تحقیق میں لگا چکے ہیں اور جلد ہی مزید معلومات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ واقعہ سویڈن جیسے امن پسند ملک میں ایک بڑی دہشت کی علامت بن چکا ہے اور دنیا بھر میں اس سانحے پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ پولیس کی تحقیقات کے نتیجے میں اس بھیانک واقعے کے تمام پہلوؤں کا کھل کر پتا چلے گا اور سوئیڈن کی عوام کو انصاف ملے گا۔
یہ واقعہ نہ صرف سویڈن بلکہ دنیا بھر کے لیے ایک سخت پیغام ہے کہ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں اور عوامی مقامات کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑیں: غزہ کی جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر حماس کا ماسکو میں اہم اجلاس