امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ (اسرائیلی) جنگ سے تباہ حال غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور فلسطینیوں کو پڑوسی ممالک میں بےدخل کرنے کے بعد اسے ترقی دے گا تاکہ دنیا کے لوگ وہاں آباد ہوں۔
ٹرمپ کا یہ اعلان اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سےدہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کےبرعکس دیکھا جا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکا دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے۔
ٹرمپ نے زیادہ تفصیل فراہم کیے بغیر اپنے حیران کن منصوبے کا اعلان اس وقت کیا جب عالمی عدالت انصاف سے جاری ہونے والے وارنٹ گرفتاری کی وجہ سے پریشانی کا شکار اسرائیلی وزیراعظم بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا “امریکا غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لے گا، اور ہم اس کے ساتھ بھی کام کریں گے۔”
اس اعلان سے پہلے ٹرمپ کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کے نکال کر مستقل طور پر ہمسایہ ممالک میں بھیجنے کا کہا گیا تو مصر اور اردن نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔
اس کے باوجود ایک مرتبہ پھر ٹرمپ نے غزہ میں مقیم 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کر کے پڑوسی ممالک بھیجنے کا اعلان کیا۔
غزہ جنگ کے لیے اسرائیل کو سب سے زیادہ اسلحہ اور زمینی حملے کے لیے فوجی قوت فراہم کرنے والے امریکا کے صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس کے شرکا کو بتایا کہ “ہم اس (غزہ) کے مالک ہوں گے اور وہاں پر موجود تمام خطرناک ہتھیاروں اور دیگر کو ختم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔”

ٹرمپ نے مزید کہا کہ “ہم اس ٹکڑے پر قبضہ کرنے جا رہے ہیں، ہم اسے ترقی دینے جا رہے ہیں ہزاروں ملازمتیں پیدا کریں گے اور یہ ایسی چیز ہو گی جس پر پورا مشرق وسطیٰ فخر کر سکتا ہے۔”
انہوں نے کہا “میں ایک طویل مدتی ملکیت کی پوزیشن دیکھ رہا ہوں اور میں اسے مشرق وسطیٰ کے اس حصے میں زبردست استحکام لاتا ہوا دیکھ رہا ہوں” انہوں نے دعوی کیا کہ “علاقائی رہنماؤں سے بات کی ہے اور انہوں نے اس کی حمایت کی ہے۔”
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہاں کون رہے گا تو ٹرمپ نے فلسطینیوں کے ملک میں انہی کی رہائش کا حق ماننے کے بجائے کہاکہ “وہ دنیا کے لوگوں کا گھر بن سکتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آ کر یہاں بس سکتے ہیں”۔
ٹرمپ نے اس سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا کہ امریکہ کس طرح اور کس اختیار کے تحت غزہ پر قبضہ کر سکتا ہے۔ امریکی انتظامیہ بشمول ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں، وہاں امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے گریز کیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا کہ”ٹرمپ اس مسئلے پر غیرروایتی سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی غیرروایتی سوچ نئے خیالات کو جنم دیتی ہے۔”
امریکی صدر کی جانب سے غزہ پر قبضے کا یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسرائیل اور غزہ کی حکمراں جماعت حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے پہلے فیز کے تحت متعدد اسرائیلی اور جواب میں سینکڑوں فلسطینی قیدی رہا کیے گئے ہیں۔ پہلے سے اعلان کردہ ٹائم لائن کے مطابق اب مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے دوسرے فیز کی تفصیلات طے کی جانی تھیں۔
مبصرین کو توقع ہے کہ ٹرمپ مستقبل کے مذاکرات کے لیے پیرامیٹرز طے کرنے کے لیے بعض اوقات عالمی سطح پر انتہائی سخت موقف اختیار کرتے ہیں۔ اپنی پہلی مدت میں، ٹرمپ نے بعض اوقات ایسے بیانات جاری کیے جنہیں خارجہ پالیسی کے بڑے اعلانات کے طور پر دیکھا جاتا تھا، ان میں سے اکثر کو انہوں نے کبھی نافذ نہیں کیا۔