چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی نے ایک اہم بریفنگ میں آئی ایم ایف وفد سے ملاقات، عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات، عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری، اور پشاور ہائی کورٹ کے ججز کے تحفظات سمیت اہم معاملات پر گفتگو کی ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے انکشاف کیا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے 6 رکنی وفد سے ملاقات کی، جس میں عدلیہ کی آزادی، عدالتی اصلاحات اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
آئی ایم ایف وفد نے سوال کیا کہ اگر بیرونی سرمایہ کاری آتی ہے تو کیا وہ محفوظ ہوگی؟ جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور ہمیں آپ کی مدد درکار ہوگی۔
وفد کو عدالتی ریفارمز اور نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے سے آگاہ کیا گیا۔ آئی ایم ایف نے پراپرٹی رائٹس کے تحفظ سے متعلق اپنی تجاویز دیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس پر اصلاحات کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے اور ہمارا کام نہیں کہ ہم آئی ایم ایف کو ہر معاملے کی تفصیل دیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف وفد کو بتایا کہ عدلیہ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کی ضرورت ہوگی تاکہ انصاف کی فراہمی مزید مؤثر بنائی جا سکے۔ ہائیکورٹس میں جلد سماعت کے لیے خصوصی بینچز بنانے کی تجویز بھی دی گئی۔
عمران خان اور شہباز شریف کے خطوط پر مؤقف
چیف جسٹس نے تصدیق کی کہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف دونوں کے خطوط موصول ہوئے ہیں۔
عمران خان کا خط آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اسے ججز پر مشتمل آئینی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
عمران خان نے اپنے خط کے ساتھ ایک یو ایس بی میں شواہد بھی فراہم کیے ہیں، جس کا جائزہ لیا جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے مختلف شخصیات کے خطوط موصول ہوتے ہیں، مگر ہر خط کا جواب دینا ممکن نہیں ہوتا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے خط پر بات کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وزیراعظم کو سلام کا پیغام بھجوایا، مگر خط کا جواب نہیں دیں گے۔
وزیراعظم کو کہا گیا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں تاکہ عدالتی اصلاحات پر بات ہو سکے۔
عدالتی اصلاحات اور ججز کے خدشات
چیف جسٹس نے بتایا کہ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کے لیے ایجنڈا مانگا ہے۔
قائد حزب اختلاف سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، جو بڑی مشکل سے ممکن ہوا۔
ججز کو ہدایت دی گئی کہ سسٹم کو چلنے دیں اور کسی بھی وجہ سے اسے روکیں نہیں۔
میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز سن رہے تھے، وہ آج کل کیسز نہیں سن رہے، یہ مسئلہ حل ہونا چاہیے۔
پشاور ہائی کورٹ کے ججز اور عدالتی بحران
چیف جسٹس نے پشاور ہائی کورٹ میں ججز کے تحفظات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کل ججز بائیکاٹ نہ کرتے تو سنیارٹی میں دوسرے نمبر کے جج سپریم کورٹ آتے، نہ کہ چوتھے نمبر کے، پشاور ہائی کورٹ کے تمام ججز کو ایک ساتھ بلا کر بات کی تھی، تمام ججز نے کہا جو بھی سپریم کورٹ آئے، انہیں اعتراض نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ اگر چوتھے نمبر کے جج کو ووٹ نہ دیتا تو وہ بھی سپریم کورٹ میں نہ آ سکتے، کل بائیکاٹ کرنے والے ججز کو کہا تھا کہ کچھ دیر انتظار کریں، 26 اکتوبر کو حلف لیا اور ہائی کورٹ کے چھ ججز کو اپنے گھر بلایا، ان کا خط اب ایجنڈا نمبر ون ہے، جیلوں میں جاتا ہوں تو لوگ مجھے قصوروار سمجھتے ہیں۔
چیف جسٹس نے مزید کہا ہے آئندہ ہفتے سے دو مستقل بنچ صرف فوجداری مقدمات سنیں گے، ججز ہوں گے تو ہی بنچز بنا سکوں گا، سپریم کورٹ میں نئی تقرریاں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا نیا چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے لیے زیر غور آ سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں ججز کی تقرریوں میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنایا جائے گا۔