پاکستان میں تنخواہ دار طبقے کے لیے ٹیکس کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے اور اس سال کے پہلے سات ماہ میں 100 ارب روپے سے زیادہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔
سات ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 285 ارب روپے ٹیکس کی مد میں ادا کیے ہیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 185 ارب روپے تھے۔
یہ اضافہ حکومتی تخمینوں سے بھی 25 ارب روپے زیادہ ہے اور معاشی حالات میں شدت کو ظاہر کرتا ہے۔
پاکستان کے وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے ‘نویگیٹنگ ایز آف ڈوئنگ بزنس ان پاکستان’ کے سیمینار کے دوران اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ اس کی ادائیگی کی صلاحیت سے کہیں زیادہ ہے اور بجٹ میں اس بوجھ کو دیگر شعبوں پر منتقل کرنے کا ارادہ ہے۔”
علی پرویز ملک کا کہنا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں وزیراعظم شہباز شریف کی تردید کے باوجود 75 ارب روپے کا اضافی بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈالنا پڑا تھا تاکہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) کے پروگرام کو جاری رکھا جا سکے۔
تاہم یہ بوجھ اس سال کے آخر تک 100 ارب روپے سے بھی تجاوز کر چکا ہے جو حکومتی پیش گوئیوں سے کہیں زیادہ ہے۔

( فائل فوٹو/ڈان نیوز)
ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح بلند ترین سطح پر ہے اور عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو چکا ہے اس کے باوجود ٹیکس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
رواں مالی سال کے سات ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 53 فیصد زیادہ ٹیکس ادا کیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے آخر تک تنخواہ دار طبقے نے 368 ارب روپے ٹیکس ادا کیا تھا اور اس سال سات ماہ میں ہی 285 ارب روپے کا ہدف عبور کر لیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق غیر کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 122 ارب روپے ادا کیے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے 86 ارب روپے ٹیکس ادا کیے جو 50 فیصد کا اضافہ ہے۔
دوسری جانب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے ملازمین کے ٹیکس میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے کو آیا جہاں صوبائی حکومت کے ملازمین نے 48 ارب روپے اور وفاقی حکومت کے ملازمین نے 29 ارب روپے ادا کیے جو بالترتیب 96 فیصد اور 63 فیصد زیادہ ہیں۔
اس کے علاوہ حکومت کا ماننا ہے کہ غیر رجسٹرڈ تاجروں سے ‘ایٹ سورس’ ٹیکس کٹوتی ایک کامیاب حکمت عملی ثابت ہوئی ہے۔ تاہم، اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کرپشن کم ہوگئی، عالمی درجہ بندی میں بہتری
علی پرویز ملک نے سیمینار کے دوران اس بات کا بھی ذکر کیا کہ مشروبات کی صنعت پر بھاری ٹیکس کی وجہ سے غیر رسمی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسی طرح بچوں کی غذائی مصنوعات کی غیر قانونی درآمدات بھی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہیں۔ غیر رجسٹرڈ اور سمگل شدہ مصنوعات کی قیمتیں مقامی کاروبار سے نصف تک کم ہیں جو نہ صرف مارکیٹ میں مسائل پیدا کر رہی ہیں بلکہ عوام کی صحت کے لیے بھی خطرہ بن گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ‘سیکرٹری سپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل’ (SIFC) جمیل قریشی نے بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے اپنی کوششوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ کونسل ملک میں خصوصی اقتصادی زونز (SEZs) کو بہتر بنانے بجلی کی قیمتوں میں کمی اور 100 قابلِ سرمایہ کاری منصوبوں کے لیے feasibility studies تیار کرنے پر کام کر رہی ہے۔
جمیل قریشی نے یہ بھی بتایا کہ حکومت پاکستان سوورین ویلتھ فنڈ کو عملی جامع پہنانے کی کوششیں کر رہی ہے جس کے تحت سات منافع بخش اداروں کی حصص کو بیرون ملک فروخت کیا جائے گا تاکہ مالی وسائل

(فائل فوٹو/لنکڈان)
میں اضافہ کیا جا سکے۔
تاہم عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) نے اس فنڈ کے قانون اور حکومتی ڈھانچے پر اعتراضات اٹھائے ہیں جس کی وجہ سے یہ فنڈ عملی طور پر کام نہیں کر رہا۔
پاکستان میں مالی مشکلات اور ٹیکس کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وزیر خزانہ نے اس بات کا عندیہ دیا کہ آئندہ بجٹ میں اس بوجھ کو دیگر شعبوں پر منتقل کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا حکومت اس ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ضروری اقدامات اور اقتصادی ترقی کے لیے بنیادی اصلاحات کی ضرورت شدت اختیار کر چکی ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بچانے کے لیے ٹیکس پالیسی، سرمایہ کاری کے فروغ اور اقتصادی اصلاحات پر تیز اور مؤثر اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف حکومت کے مالی خسارے کو کم کیا جا سکے بلکہ عوام کو زیادہ فوائد بھی مل سکیں۔
پاکستان میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے جس کی وجہ سے حکومت کو آئندہ بجٹ میں اس بوجھ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
285 ارب روپے کا ٹیکس ادا کرنے کے باوجود حکومت کے لیے یہ بڑا چیلنج ہے کہ وہ عوام کو مزید مالی مشکلات سے بچانے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔
مزید پڑھیں: دیامر بھاشا ڈیم:زمین کے معاوضے کی ادائیگی مکمل، مقامی کمیونٹی کے لیے ترقی کے دروازے کھل گئے