Follw Us on:

سردی، بارش اور سرائیکیوں کی صحبت میں ’ثوبت‘ کا اپنا ہی مزہ ہے، ثوبت ہے کیا؟

مادھو لعل
مادھو لعل
ڈیرہ غازی خان اور اس کے اردگرد کے اضلاع میں بسنے والوں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

سردی کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں سردیوں کے کھانے اور سوغات عام ہو جاتی ہیں۔ دوستوں کو دی گئی دعوت ہو یا مہمانوں کی آمد، سب سے پہلے ان سوغات کو ہی پیش کیا جاتا ہے۔ ہرعلاقے اور قبیلے کی اپنی روایات اور کھانے ہوتے ہیں اور مہمانوں کی آمد پر انھیں خاص روایتی کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے جنوبی اضلاع کی زیادہ تر عوام سرائیکی بولتے ہیں، سرائیکی بولنے کی نسبت سے ان کو’سرائیکی‘ کہا جاتا ہے، ان کے اپنے روایتی کھانے ہیں۔ وہاں کے روایتی کھانوں میں ‘ثوبت’ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یوں تو ثوبت سال بھر چلتی ہے، مگر سردیوں میں یہ سب سے زیادہ بنائی اور کھائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر سردیوں میں ثوبت نہ ہو تو مزا ادھورا رہ جاتا ہے۔
ثوبت جنوبی پنجاب میں ڈیرہ غازی خان اور اس کے اردگرد کے اضلاع میں بسنے والوں کی پسندیدہ خوراک ہے اور یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی خاصی بنائی جاتی ہے۔
پشتو زبان میں ‘ثوبت’ کو پینڈا، جب کہ عربی زبان میں اسے ثرید کہا جاتا ہے، یہ ایک روایتی ڈِش ہے، جو گوشت ملے شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑوں کو بھگو کر بنائی جاتی ہے۔ اس کو کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بڑی ڈش جسے مقامی زبان میں تھال کہتے ہیں کے گرد آٹھ دس آدمی بیٹھ کر اپنے ہاتھوں سے لقمے اٹھا کر کھاتے ہیں۔

گوشت ملے شوربے میں روٹیوں کے ٹکڑوں کو بھگو کر بنائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فیسبک)

سردی، بارش اور دوستوں کی صحبت میں ‘ثوبت’ مل جائے تو مزا دگنا ہو جاتا ہے۔ مقامی روایات کے مطابق ثوبت یا سوبت کا تاریخی نام صحبت ہی ہے، جس کا مطلب محفل یا اکٹھے ہونا کے ہیں۔ مماثلت سے بچنے کے لئے اسے عرفِ عام میں ثوبت پکارا جانے لگا اور اسے اب ثوبت ہی کہا جاتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق ثوبت کا آغاز ضلع ڈیرہ غازی خان کے شہر تونسہ شریف سے ہوا اور پھر یہ آہستہ آہستہ پورے جنوبی پنجاب کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان میں پھیل گئی۔ بنوں میں اس ڈش کو خاص پذیرائی ملی اور مختلف ریستورانوں (ہوٹلوں) پر یہ خوب بکنے لگی۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں غذائی قلت: یہ بھوک نہیں، نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک ثوبت صرف گھروں میں ہی بنائی جاتی تھی اور خاص مواقع پر کھائی جاتی تھی، مگر اس کی بڑھتی ہوئی اہمیت کے پیشِ نظر اب مقامی لوگوں نے اسے ریستورانوں (ہوٹلوں) پر بنانا اور بیچنا شروع کر دیا ہے۔ دوستوں کی محفل ہو یارشتہ داروں کی آمد، ثوبت کھانے کا حصہ نہ ہو ایسا تو ہو نہیں سکتا۔
ثوبت کو تیار کرنے کا طریقہ انتہائی سادہ ہے، سب سے پہلے پتیلے میں گھی ڈالا جاتا ہے اور پھر اس میں کٹے ہوئے پیاز ڈالے جاتے ہیں۔ پیاز پیلے پڑنے پر اس میں ٹماٹر ڈال کر بھونا جاتا ہے اورپھر مختلف قسم کے مصالحہ جات کے ساتھ مرغی کا گوشت ڈال کر اسے بھون لیا جاتا ہے۔

ثوبت صرف گھروں میں ہی بنائی جاتی تھی اور خاص مواقع پر کھائی جاتی تھی۔ (فوٹو: فیسبک)

15 منٹ کے لئے اسے اچھی طرح پکایا جاتا ہے، جب تک کہ اس میں سے پکی ہوئی خوشبو نہ آنے لگے۔ ثوبت کے لیے گندم کے آٹے سے بنی پتلی روٹیوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تھال میں ڈال کر اوپر شوربا انڈیل دیا جاتا ہے اور اوپر مرغی کی بوٹیاں رکھ دی جاتی ہیں اور کناروں پر سلاد ڈال دیا جاتا ہے۔
پھر 4 سے 5 دوستوں کا گروپ اپنے ہاتھوں سے تھال میں سے نوالے کھانا شروع کر دیتا ہے۔ دوستوں سے گپ شپ کرتے ہوئے ثوبت کھانے کا الگ ہی مزہ ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ ہمارا تو یقین ہے، اچھا اور لذیز کھانا ہر شخص کا حق ہے، اگر آپ کا کوئی دوست سرائیکی ہے یا ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتا ہے، تو اس سے ثوبت کی فرمائش کریں اور ایک بار کھا کر ضرور دیکھیں، آپ بھی ‘پاکستان میٹرز’ کے قائل ہو جائیں گے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس