ہر سال 4 فروری کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرطان (کینسر) سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد عوام میں اس خطرناک اور جان لیوا مرض سے آگاہی اور اس سےبچاؤ کے متعلق شعور پیدا کرنا ہے۔
4 فروری کو وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے اپنے پیغام میں کہا کہ عالمی سطح پر سرطان موت کی دوسری بڑی وجہ ہے، پاکستان نے کینسر کی تحقیق، علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس بیماری کی روک تھام اور مؤثر طریقے سے علاج کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔
اقوامِ متحدہ خبرنامے کے مطابق دنیا بھر میں روزانہ 1000 سے زائد بچوں میں سرطان کی تشخیص ہوتی ہے، اگرچہ طبی میدان میں حالیہ ہوئی ترقی سے بہتر آمدنی والے ممالک میں اس بیماری سے صحت یابی کے امکانات بڑھے ہیں، جس سے 80 فیصد سے زائد بچوں کی جان بچائی جا سکتی ہے، مگر کم آمدنی والے ممالک میں اس کی شرح صرف 20 فیصد تک ہی رہنے کا امکان ہے۔
بچوں میں کینسر کی روک تھام کے لیے مضبوط طبی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق کینسر میں مبتلا بچوں کی صحت یابی کا بڑی حد تک دار و مدار ایسے طبی نظام پر ہوتا ہے، جو ان میں بیماری کی بروقت تشخیص اور ابتدائی مرحلے میں ہی موزوں علاج مہیا کر سکے۔
بچپن میں کینسر کے بڑھتے ہوئے کیسز نے دنیا بھر کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ جدید طرزِ زندگی، غیر متوازن غذا اور آلودہ ماحول نے بچوں کی صحت پر منفی اثر ڈال دیا ہے۔ مزید یہ کہ کیمیکل زدہ خوراک اور فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے استعمال سے موٹاپا، الرجی اور دیگر بیماریوں میں اضافہ ہو ا ہے۔
دوسری جانب فضائی آلودگی اور زہریلے کیمیکلز نے سانس اور جلدی امراض میں اضافہ کر دیا ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ کو ماہر امراض ِ اطفال ڈاکٹر خدیجہ افضل نے بتایا ہے کہ بچوں میں عام طور پر لیوکیمیا، برین ٹیومر اور لمفوما جیسے کینسر پائے جاتے ہیں۔ ان کی وجوہات میں جینیاتی عوامل، ماحولیاتی آلودگی، تابکاری اور بعض وائرس شامل ہو سکتے ہیں۔ جدید تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ قبل از پیدائش ماحولیاتی عوامل بچے میں کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔
جدید دور میں فاسٹ فوڈ کا ہر جگہ استعمال عام ہے، والدین آئے روز باہر سے کھانا منگواتے ہیں اور اسے بچوں کی بھی ساتھ کھلا دیتے ہیں، جس سے سرطان سمیت کئی بیماریاں بچوں میں جنم لے رہی ہیں۔
ڈاکٹر خدیجہ افضل کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ اور پروسیسڈ فوڈ میں موجود مصنوعی اجزاء، پریزرویٹوز اور کیمیکل بچوں کے مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتے ہیں۔ ان کھانوں میں موجود ٹرانس فیٹس اور ہائی فریکٹوز کارن سیرپ موٹاپے اور ہارمونی عدم توازن کا سبب بنتے ہیں، جو بعض اقسام کے کینسر کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔
خدیجہ افضل نے کہا ہے کہ تحقیق کے مطابق بازاری کھانوں میں پائے جانے والے کیمیکلز جیسے سوڈیم نائٹریٹ، بی ایچ اے اور بی ایچ ٹی کارسینوجینک اثرات رکھتے ہیں۔ مصنوعی رنگ اور فلیورز بھی بچوں کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں اور طویل مدتی استعمال کینسر کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔
بچوں میں سرطان کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی کو مانا جاتا ہے، حکومتی ادارے اور عالمی تنظیمیں اس کے بچاؤ کے لیے اقدامات کرنے میں لگی ہیں، جس کی وجہ سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کیسے بچوں میں کینسر کا سبب بن سکتی ہے؟
ڈاکٹر خدیجہ افضل نے پاکستان میٹرز کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ فضائی آلودگی، آلودہ پانی اور زہریلے کیمیکل بچوں کے جسم میں زہریلے مادے جمع کرنے کا سبب بنتے ہیں، جو کینسر کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں۔ خاص طور پر صنعتی علاقوں میں رہنے والے بچوں میں سانس اور خون کے کینسر کے کیسز زیادہ دیکھے گئے ہیں۔
ماہر امراضِ اطفال نے کہا ہے کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کیڑے مار ادویات، پلاسٹک میں موجود زہریلے اجزاء (بی پی اے) اور آلودہ پانی بھی مدافعتی نظام کو کمزور کر کے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں سائنسی ترقی کی بدولت علاج میں بہتری آئی ہے، مگر اس کے ساتھ بچوں میں کینسر کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیاہے.
عالمی ادارہ صحت کی گلوبل کینسر آبزرویٹری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2022 میں 185,748 کیسز رپورٹ ہوئے، 118, 631 اموات ہوئیں، جب کہ 5 سال سے کم عمر 390,443 مروجہ مقدمات درج ہوئے۔
ماہر صحتِ عامہ ڈاکٹر قمر ایوب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ پاکستان میں غذائی آلودگی، کمزور مدافعتی نظام، آلودہ پانی اور ناقص صحت سہولیات کی وجہ سے بچوں میں کینسر کے کیسز بڑھ رہے ہیں۔ بدقسمتی سے وقت پر تشخیص نہ ہونے اور مالی وسائل کی کمی بھی بیماری کی شدت میں اضافہ کرتی ہے۔
کینسر سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں میں صحت مند غذائی عادات پروان چڑھائی جائیں، قمر ایوب کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو تازہ اور گھریلو کھانوں کی طرف راغب کریں، جن میں پھل، سبزیاں اور پروٹین سے بھرپور غذا شامل ہو۔ جنک فوڈ کی جگہ صحت مند اسنیکس متعارف کروا کر اور کھانے کے اوقات مقرر کر کے صحت مند عادات پروان چڑھائی جا سکتی ہیں۔
حکومتی سطح سے اقدامات کے حوالے سے ڈاکٹر قمر ایوب نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غذائی اشیاء میں ملاوٹ کے خلاف سخت قوانین نافذ کرے اور عوام میں آگاہی مہم چلائے۔ نجی ادارے بھی کینسر ریسرچ، علاج کی سہولتوں اور صحت مند غذا کی فراہمی میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مزید یہ کہ والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، بازاری اور پروسیسڈ فوڈ سے گریز کریں اور انہیں جسمانی سرگرمیوں میں شامل کریں۔ اس کے علاوہ، بچوں کا باقاعدہ طبی معائنہ کروانا اور کسی بھی غیرمعمولی علامات کو نظرانداز نہ کرنا بہت ضروری ہے۔
یہ ماہرین کی رائے ظاہر کرتی ہے کہ بچوں کی صحت کے لیے متوازن غذا، صاف ستھرا ماحول اور بروقت طبی معائنہ کینسر کی روک تھام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔