Follw Us on:

ججز عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے ایک تاریخی فیصلے میں رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار ہائی کورٹ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے میں عدالت نے کہا کہ ججز عدالتی افسران کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع نہیں کر سکتے تاہم اگر کسی افسر کی جانب سے کوتاہی ہو تو محکمانہ کارروائی ضرور کی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس انعام امین منہاس پر مشتمل لارجر بینچ نے رجسٹرار سردار طاہر صابر اور ڈپٹی رجسٹرار محمد اویس الحسن خان کی جانب سے دائر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے خلاف اپیل پر فیصلہ سنایا۔

لارجر بینچ نے اس بات پر زور دیا کہ ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی شروع کی جا سکتی ہے، مگر توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے انضباطی اقدامات زیادہ مناسب ہیں۔

نجی نشریاتی ادارے ڈان نیوز کے مطابق عدالت نے کہا کہ اگر فرادی کوتاہی کا معاملہ ہو تو اس کی رپورٹ چیف جسٹس کو دی جانی چاہیے تھی اور پھر اس کے خلاف ایڈمنسٹریشن کمیٹی میں کارروائی کی جانی چاہیے تھی، نہ کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاتی۔

یہ معاملہ گزشتہ سال 9 مئی کو شروع ہوا تھا جب وکلا کی ہڑتال کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے افسران پر امن و امان برقرار رکھنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا۔

وکیل نعیم بخاری کی شکایت پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی، جس میں انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن (آئی ایچ سی بی اے) کے صدر پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے وکلا کو ہائی کورٹ کے احاطے میں داخل ہونے سے زبردستی روکا تھا۔

اس کے بعد، توہین عدالت کی کارروائی کی ہدایات رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کی جانب موڑ دی گئیں کیونکہ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے عدالت کو گمراہ کیا تھا۔

دونوں افسران نے انٹرا کورٹ اپیلوں کے ذریعے توہین عدالت کی کارروائی کو چیلنج کیا تھا جس کے بعد یہ معاملہ لارجر بینچ کے سامنے آیا۔

یہ بھی پڑھیں: “پاکستانیت سب سے اہم، پاک فوج کبھی نہیں ہارے گی” آرمی چیف کا طلبا سے خطاب

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کے وکیل نے عدالت میں موقف اپنایا کہ اس معاملے میں توہین عدالت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

وکیل نے کہا کہ قانونی برادری کے کسی رکن کو اس عدالت میں آنے سے نہیں روکا گیا، اور نہ ہی توہین عدالت کی کوئی دوسری وجہ تھی۔

وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ان افسران کی جانب سے فرادی کوتاہی ہوئی تھی تو اس کا مناسب طریقہ یہ تھا کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کے بجائے انضباطی کارروائی کی جاتی۔

لارجر بینچ نے اس مؤقف کو تسلیم کیا اور کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے سے ادارے کی آزادی اور اس کے کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہو سکتی ہے۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہائیکورٹ کے جج کو لگتا ہے کہ کسی افسر کی جانب سے اپنے فرائض میں غفلت برتی جا رہی ہے تو اس معاملے کو چیف جسٹس یا ایڈمنسٹریشن کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہیے تھا، نہ کہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جاتی۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر توہین عدالت کی کارروائی کی جاتی ہے جہاں کوئی انتظامی یا عدالتی حکم نہیں تھا تو اس سے ادارے کی آزادانہ اور ہموار کارروائی میں رکاوٹ آئے گی۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کسی افسر کی جانب سے ڈیوٹی میں کوتاہی ہوئی تو اس کے لیے مناسب فورم انضباطی کارروائی کا ہے اور اس کے لیے شکایت متعلقہ اتھارٹی کے سامنے پیش کی جانی چاہیے۔

لازمی پڑھیں: چچا بھتیجی کا رشتہ قائم رہے مگر وزیرِاعظم باقی صوبوں پر بھی نظرِ کرم کریں، ترجمان سندھ حکومت

یہ کیس توہین عدالت کے ایک مقدمے کے طور پر سامنے آیا تھا جس کی ابتدا 9 مئی 2024 کو ہوئی تھی۔ اس روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں وکلا کی ہڑتال جاری تھی اور اس دوران امن و امان کے معاملات خراب ہوئے۔

وکیل نعیم بخاری نے اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے وکلا کو عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روکا تھا۔

بعد میں اس معاملے میں رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی گئی۔ لیکن ان دونوں افسران نے انٹرا کورٹ اپیل کے ذریعے اس کارروائی کو چیلنج کیا جس کے بعد یہ کیس لارجر بینچ کے سامنے آیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار نے گزشتہ سال 9 مئی کو کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کی تھی۔ اس لیے توہین عدالت کی کارروائی کے کوئی جواز نہیں تھے، اور عدالت نے توہین عدالت کی کارروائی کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہ فیصلہ صرف اسلام آباد ہائیکورٹ کی کارروائی کا ہی نہیں بلکہ عدلیہ کی آزادی اور اس کے مؤثر کام کے لئے بھی ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس فیصلے نے یہ ثابت کیا کہ عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے ادارے کی آزادی متاثر ہو سکتی ہے، اور اس کی بجائے مناسب انضباطی کارروائی کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔

یہ فیصلہ نہ صرف عدلیہ کے آزادانہ کام کے حق میں ہے بلکہ یہ اس بات کو بھی اجاگر کرتا ہے کہ عدالتوں کو سیاسی اور انتظامی امور میں دخل اندازی سے بچنا چاہیے تاکہ انصاف کی فراہمی میں کسی بھی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔

مزید پڑھیں: ڈھائی سال بعد جماعتِ اسلامی کا ہر ٹاؤن ماڈل ٹاؤن ہو گا، امیر جماعتِ اسلامی کراچی کا دعویٰ

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس