کراچی میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات نے شہریوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ سال 771 سے زائد حادثات میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ 2025 میں 105 سے زائد افراد کی زندگیوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
ان تمام حادثات کی روک تھام کے لیے جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر اور اپوزیشن لیڈر کے ایم سی ایف الدین ایڈووکیٹ نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔
جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر نے سندھ ہائیکورٹ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات ایک سنگین مسئلہ بن چکے ہیں، اور ان کا حل فوری طور پر طلب کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کی غفلت کی وجہ سے شہریوں کی جانوں کا ضیاع ہو رہا ہے اور اس پر حکومت کی خاموشی ناقابل قبول ہے۔
منعم ظفر کا کہنا ہے کہ “یہ حادثات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ کراچی کی سڑکوں پر کوئی حکومتی نگرانی نظر نہیں آتی۔ حکومت کا وجود صرف کاغذوں تک محدود ہے، اور وہ عوام کے مسائل کو نظرانداز کر رہی ہے۔”
انہوں نے سندھ ہائیکورٹ میں دائر کی جانے والی پٹیشن کے حوالے سے کہا کہ یہ درخواست سندھ حکومت، وزارت ٹرانسپورٹ، محکمہ پولیس اور کے ایم سی کے ذمہ داروں کے خلاف دائر کی گئی ہے تاکہ وہ ہیوی ٹریفک کی مانیٹرنگ کا پابند ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: یونیورسٹی روڈ کی دوبارہ کھدائی: عوام کا پیسہ ضائع کیوں؟
پٹیشن میں سندھ کے چیف سیکرٹری، سیکرٹری ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی ٹریفک اور کے ایم سی کو فریق بنایا گیا ہے۔
اس درخواست میں ان اداروں کے خلاف غفلت کے الزامات لگائے گئے ہیں جن کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو رہی ہے۔
عثمان فاروق ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا کہ “پولیس کو حکم دیا جائے کہ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک شہر میں ہیوی ٹریفک کے داخلے پر پابندی پر عمل درآمد کرایا جائے۔”
منعم ظفر نے مزید کہا کہ “کراچی کی سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔ یہاں ٹریفک کی مناسب مانیٹرنگ اور روڈ سیفٹی قوانین پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ شہر میں اوور لوڈنگ اور ناتجربہ کار ڈرائیوروں کا یہ عالم ہے کہ وہ ہیوی ٹریفک چلاتے ہیں، جس سے حادثات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔”
انہوں نے سڑکوں کی کارپٹنگ کے لیے مختص فنڈز کے استعمال کی تفصیلات بھی طلب کی ہیں اور ان اخراجات کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے حکومت سندھ سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر سڑکوں کی مرمت، پارکنگ کے مسائل، اور چنگ چی رکشوں کی بھرمار کو کنٹرول کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ شہر کو پندرہ سو سے زائد بسوں کی ضرورت ہے اور مونو ٹرین جیسے منصوبے کو عملی شکل دی جانی چاہیے۔
لازمی پڑھیں: سعودی عرب وژن 2030 کے لیے پاکستانی افرادی قوت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے: وزیر خزانہ
منعم ظفر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “کراچی کے شہری ٹیکس بھی دیتے ہیں پھر بھی انہیں پانی خرید کر پینا پڑتا ہے۔”
دوسری جانب گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے شہر میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھا ہے۔
گورنر سندھ نے ڈمپر ٹرک اور واٹر ٹینکرز کے ڈرائیوروں کی لاپرواہ ڈرائیونگ پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ چند مہینوں میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں اور حادثات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو مشورہ دیا کہ وہ چیف سیکرٹری کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیں تاکہ حادثات کی وجوہات کا پتہ چلایا جا سکے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جا سکے۔
گورنر نے اپنی درخواست میں کہا کہ اس وقت عوام میں شدید بے چینی اور تحفظات پائے جاتے ہیں، اور حکومت سے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی استدعا کی تاکہ شہریوں کی قیمتی جانوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
کراچی کے شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور دونوں جماعت اسلامی اور گورنر سندھ کی طرف سے کئے گئے مطالبات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب وقت آ چکا ہے کہ ٹریفک قوانین کو سختی سے نافذ کیا جائے اور حادثات کی روک تھام کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنائی جائے۔
کراچی کے شہریوں کی زندگیوں کو لاحق خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جاتی ہے کہ سندھ حکومت اس سنگین مسئلے کی طرف توجہ دے گی اور جلد ہی اقدامات اٹھائے گی تاکہ کراچی کے عوام کو محفوظ سڑکوں پر سفر کرنے کا حق مل سکے۔
مزید پڑھیں: ہم ایک ایسا رابطہ قائم کر رہے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان پل بنے گا، مشاہد حسین سید