حزب اللہ کے رہنما شیخ نعیم قاسم نے اسرائیل کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج کو 18 فروری تک لبنانی سرزمین سے مکمل طور پر انخلا کرنا ہوگا بصورت دیگر کسی بھی اسرائیلی موجودگی کو قبضہ سمجھا جائے گا۔
شیخ قاسم کا یہ بیان ایک ٹی وی خطاب میں سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے مطابق اسرائیل کے لیے 60 دنوں کے اندر مکمل انخلا ضروری تھا اور اس معاہدے میں کوئی استثنا نہیں۔
اکتوبر کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے جنوبی لبنان میں زمینی حملے شروع کیے تھے اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ شدید جھڑپیں ہو رہی تھیں جو اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کا حصہ تھیں۔
نومبر میں امریکی ثالثی میں ہونے والے معاہدے کے تحت اسرائیل کو لبنانی سرزمین سے 60 دنوں کے اندر انخلا کرنا تھا تاہم اس وقت کی مدت 18 فروری تک بڑھا دی گئی تھی۔
اسرائیل نے حال ہی میں پانچ فوجی پوسٹس کو اس معاہدے سے مستثنیٰ رکھنے کی درخواست کی تھی جسے حزب اللہ نے سختی سے مسترد کردیا۔
ضرور پڑھیں: ’حماس کو ختم کرنا ضروری ہے‘ امریکی وزیرخارجہ کا اسرائیلی سرزمین پر بیان
شیخ نعیم قاسم نے واضح طور پر کہا کہ “اسرائیل کو 18 فروری تک مکمل طور پر انخلا کرنا ہوگا اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔”
18 فروری کا دن قریب آتے ہی اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ شیخ قاسم نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی فوج اس تاریخ کے بعد بھی لبنان میں موجود رہی تو اسے قبضہ تصور کیا جائے گا اور اس کا جواب سختی سے دیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ “سب جانتے ہیں کہ قبضے کا کیا ردعمل ہوتا ہے،” مگر انہوں نے براہ راست فوجی کارروائی کی دھمکی نہیں دی۔
شیخ قاسم کے خطاب کے دوران اسرائیلی طیاروں نے لبنان کے مشرقی بیکا ویلی میں کم از کم تین مقامات پر بمباری کی۔
یہ بھی پڑھیں: تائیوان معاملے کو بغیر کسی دباؤ کے پرامن طریقے سے حل کیا جائے، امریکی محکمہ خارجہ
اسرائیل کی فوج نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد حزب اللہ کی وہ پوزیشنیں تھیں جہاں راکٹ لانچر اور ہتھیاروں کے ذخیرے موجود تھے۔
یہ فضائی حملے اس بات کا غماز ہیں کہ سرحد کے دونوں طرف کشیدگی میں شدت آچکی ہے جس سے لبنان اور اسرائیل کے درمیان ٹکراو کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
شیخ قاسم نے لبنان کی حکومت کی جانب سے ایران کی پروازوں پر عائد عارضی پابندی کی بھی شدید مذمت کی جس کا مقصد اسرائیلی الزامات کے مطابق حزب اللہ تک اسلحہ اور نقد رقم کی اسمگلنگ روکنا تھا۔
اس پابندی کے باعث درجنوں لبنانی شہری ایران میں پھنس گئے جن میں زیادہ تر مذہبی نوعیت کی زیارات کے لیے گئے ہوئے تھے۔
لبنان نے ان افراد کو واپس لانے کے لیے دو پروازیں بھیجنے کی کوشش کی مگر ایران نے ان پروازوں کو تہران میں اترنے کی اجازت نہیں دی۔
اس بات نے لبنان میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کردیا اور حزب اللہ نے اس پابندی کو اسرائیل کے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔
لازمی پڑھیں: چینی لڑاکا طیاروں کی تائیوان کی سرحد پر پروازیں، تنازع ہے کیا؟
شیخ قاسم نے لبنان کی حکومت کو اسرائیل کے زیر اثر عمل کرنے کا الزام عائد کیا اور ایرانی پروازوں کو فوراً دوبارہ اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔
18 فروری تک اسرائیل کے انخلا کا فیصلہ اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری جنگ بندی کامیاب ہو پائے گی یا کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی۔
حزب اللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی کسی بھی فوجی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا، چاہے وہ پانچ فوجی پوسٹس ہوں یا کوئی اور چھوٹی پوزیشن ہو۔
دوسری جانب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی کی اس نئی لہر نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ عالمی سطح پر مسلسل مذاکرات جاری ہیں تاکہ دونوں فریقوں کو کسی نئے فوجی تصادم سے بچایا جا سکے لیکن معاہدے کی تکمیل اور اس پر عمل درآمد کی حالت میں کئی سوالات موجود ہیں۔
18 فروری کا دن نہ صرف لبنان اور اسرائیل کے لیے اہم ہے بلکہ اس سے پورے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی سطح پر اثر پڑ سکتا ہے۔
حزب اللہ کا موقف صاف ہے کہ اسرائیل کو اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے لبنان سے مکمل طور پر نکلنا ہوگا اور اس میں کسی بھی قسم کی تاخیر یا استثنا قابل قبول نہیں ہوگی۔
آنے والے دنوں میں، دنیا کی نظریں اس معاہدے پر ہوں گی، کیونکہ یہ نہ صرف اسرائیل اور لبنان کے تعلقات کو تشکیل دے گا بلکہ پورے خطے کی سیاسی اور فوجی حرکیات پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔
مزید پڑھیں: ’روس نیٹو پر جنگ مسلط کر دے گا‘ یوکرینی صدر نے امریکا کو خبردار کردیا