اپریل 11, 2025 4:32 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

کیا آپ کی زبان بھی مر رہی ہے؟ زبانوں کی بدلتی صورتحال

زین اختر
زین اختر
پاکستان میں 77 زبانیں ہیں جن میں 68 مقامی اور 9 غیر مقامی ہیں۔ (لینگویج لائف اسکول)

سنو! تم کل سے نظر نہیں آ رہے… کہاں تھے؟”میں actually ممّا کے ساتھ الحمراء گیا ہوا تھا. وہاں festival تھا۔وہ ہے نا وہ اردو poet……..کیا نام ہے اُس کا؟

Oh God, I forgot    تووہ جس کے نام میں ایک ہی word 2 بار آتا ہے؟” فیض احمد فیض!”وہی…فیض احمد فیض!ممّا کہتی ہیں. He was a revolutionary poetپتہ ہے… بہت hard ہے… اُس کی language۔او مائی گاڈ! اوپر سے گزر جاتی ہے.

آج کل ہربچے سےاسی طرح سے بات کرتے ہوئے سنیں گے اور والدین اس طرح کی زبان سے بہت فخرمحسوس کرتے ہیں جس سے بچے اپنی مقامی زبان سے بالکل لا تعلقی اختیار کرلیتے ہیں اور آخر کار وہ زبان بالکل مرجاتی ہے۔

پاکستان میں کل  77 زبانیں بولی جاتی ہیں  جن میں پشتو، پنجابی، سندھی، بلوچی، سرائیکی اورہندکوسےتوپاکستانی واقف ہیں لیکن دیگر زبانیں ایسی کہ جن کے بارے میں بیشتر پاکستانیوں کو خبر تک نہیں جن میں شینا، کھوار، کوہستانی، توروالی، گاؤری، ڈھاٹکی، تھری، بروشسکی، بلتی، وخی اور ارمڑی (برکی) وغیرہ شامل ہیں۔

انٹرنیشنل ورلڈ فیکٹ ادارہ سی آئی اے کے مطابق پاکستان میں پنجابی 39.9، پشتو 16.1، سندھی 14، سرائیکی 12.2، اردو 7.1، بلوچی 3، ہندکو 2.4، براہوی 1.2،  اور دیگر2.4  فیصد زبانیں بولی جاتی ہیں۔

عالمی زبانوں کو شمار کرنے والا ادارہ ’اینتھولوگ‘کے  2022 کے ایڈیشن کے مطابق پاکستان میں 77 زبانیں ہیں جن میں 68 مقامی اور 9 غیر مقامی ہیں ان میں سے 4 ادارتی، 24 ترقی پذیر، 30جوش مند، 15 خطرے میں اور 4 مرنے والی ہیں۔ مقامی زبان کو درپیش خطرات کے حوالے سے  پاکستان دنیا کا 28واں ملک ہے  جسے اپنی مقامی زبانیں کھونے کا خوف لاحق ہے۔

بروشسکی، شینا، واکھی، بلتی، اور کلاشی زبانوں سے زیادہ تر پاکستانی نا واقف ہیں کیوں کہ یہ زبانیں ایک خاص علاقے میں بولی جاتی ہیں اوران کو بولنے والوں کی کمی کی وجہ سے یہ زبانیں ناپید کے خطرے میں ہے۔

  بروشسکی گلگت بلتستان میں بولی جاتی ہے، یہ زبا ن کچھ اس وجہ سے منفرد ہے کیوں کہ اس کا کسی دوسری زبان سے تعلق نہیں۔ اس کے بولنے والے افراد کی تعداد کم ہو رہی ہے، اور یہ معدومیت کے خطرے میں ہے۔

 شینا شمالی علاقوں خاص طورپرگلگت اور دیامرمیں بولی جاتی ہے۔ اس زبان کے کئی لہجے ہیں اس پر فارسی اور اردو کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ شینا زبان کا ادب زیادہ تر لوک کہانیوں اور زبانی روایات پر مبنی ہے۔

واکھی چترال اور گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں بولی جاتی ہے۔ یہ زبان تاجکستان، افغانستان اورچین میں بھی بولی جاتی ہے۔واکھی زبان کے بولنے والوں کی تعداد کم ہونے کے باعث یہ بھی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

 بلتی اسکردواورکھرمنگ میں بولی  جانے والی زبان ہے۔ جدید دور میں اس زبان کا استعمال کم ہو رہا ہےجس کے باعث اس کا تحفظ ضروری ہے۔ کیلاشی زبان چترال کے کیلاشی قبیلے کی زبان ہے اور اپنی مخصوص ثقافتی شناخت کی عکاسی کرتی ہے۔ کیلاش قبیلے کی تعداد محدود ہونے کے باعث یہ زبان بھی خطرے میں ہے۔

لوگ  جدت کو اپنانے کے لیے شہروں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں  اپنے بچوں کو مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس بنیاد پر لوگ اپنے بچوں کو اردو اور انگریزی زبان  سکھانا زیادہ  بہترسمجھتے ہیں۔

پنجابی کے لکھاری جمیل احمد پال نے ’پاکستان میٹرز‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر پنجاب میں لوگ شہروں میں جا کراپنی مادری زبان میں بات چیت کرنے سے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔

’اس احساس کمتری کے پیچھے کم از کم سو، سوا سو سال کا عمل ہے۔ انگریز نے 1849 میں پنجاب پر قبضہ کیا تو اپنی پالیسی کے برعکس یہاں مقامی زبان کو نظر انداز کرتے ہوئے ’’ہندوستانی‘‘ کو رائج کیا جو بعد میں اردو کے نام سے معروف ہوئی۔ اردو کے نفاذ کے لیے خصوصی کوششیں کی گئیں‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’پیسہ اخبار‘‘ میں برسوں تک پنجابی زبان کے خلاف مہم چلائی گئی۔ اسے گھٹیا اور کمتر ثابت کرنے کے لیے مسلسل دو سال تک جعلی ناموں سے مضامین شائع کیے جاتے رہے۔

ایسی مہمات نے عام لوگوں کو متاثر کیا اور پڑھے لکھے لوگ اپنی زبان کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہوکر اسے بولنے سے گریز کرنے لگے۔ ہر شہر میں کتابوں کے بازار کو ’’اردو بازار‘‘ کا نام دیا گیا تاکہ لوگوں کو تاثر دیا جا سکے کہ اردو پڑھے لکھوں کی زبان ہے۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق جو تعلیم بچوں کی مادری زبان میں دی جائے، بچے اس کو بہتر طور پہ سمجھ سکتے ہیں۔ مگر پاکستان میں مادری زبان میں تعلیم دینے کا رجحان بہت کم ہے۔ مقامی زبانوں کے ختم ہونے کی سب سے بڑی وجہ ، حکومت کی جانب سے مادری زبانوں پر توجہ نہ دینا ہے۔ سکولوں میں صرف اردو یا انگریزی ہی پڑھائی جاتی ہے ۔

جمیل احمد پال ان مقامی زبانوں کو مزید ناپید ہونے سے بچانے کے لیےکہتے ہیں کہ دنیا بھر میں بچوں کی بنیاد بنانے کے لیےبنیادی تعلیم مادری زبان میں دی جاتی ہے۔ مادری زبان ہی چھوٹے بچوں کے لیے بہترین ذریعہ تعلیم ہے۔مقامی زبانوں کو پرائمری تک ذریعہ تعلیم بنایا جائے اور میٹرک تک ہر مقامی زبان کواختیاری مضمون کا اختیار ملنا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ سرکاری عہدے دار،وزیر اعلیٰ، اور دیگر وزراء اپنی تقریر اور اظہار خیال مقامی زبان ہی میں کریں تاکہ لوگوں سے احساس کمتری دور ہو۔ خوش قسمتی سے یہ سہولت سندھی زبان کو کسی حد تک حاصل ہے۔ پشتو اس معاملے میں کافی پیچھے ہے جبکہ پنجابی اور بلوچی ناقابل ذکر حد میں آتی ہیں۔

مادری زبانوں کو مزید ان خطرات کے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ ان زبانوں میں زیادہ سے زیادہ سیمینار، لوک کہانیوں اورموسیقی کو فروغ دیا جائے اورساتھ ساتھ مقامی ثقافت کے تہواروں پر بھی زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس