امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ میں قبضے کا منصوبہ تیزی سے پسپائی اختیار کرگیا ہے جس کے پیچھے مصر اور اردن کی جانب سے شدید مخالفت کارفرما ہے۔
ٹرمپ نے ایک ٹیلیفونک گفتگو میں کہا کہ “ہم ہر سال اردن اور مصر کو اربوں ڈالرز فراہم کرتے ہیں۔ میں تھوڑا حیران ہوں کہ ان دونوں ممالک نے میرے منصوبے کی مخالفت کی۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ منصوبہ علاقے میں استحکام لانے کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا، مگر اب میں اس پر زور زبردستی نہیں کروں گا۔”
واضح رہے کہ امریکی صدر نے واشنگٹن میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران غزہ پر قبضے کا اعلان کیا تھا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ہم اس علاقے کے مالک ہوں گے تاکہ یہاں استحکام قائم ہو سکے، اور اس کا مقصد غزہ میں طویل مدت کے لیے امریکی کنٹرول قائم کرنا ہے۔” اس منصوبے کے تحت مصر اور اردن نے فلسطینیوں کو پناہ دینے کی پیشکش کی تھی۔
تاہم یہ منصوبہ شروع سے ہی عالمی سطح پر متنازعہ بن گیا تھا۔ عرب ممالک اور بین الاقوامی رہنماؤں نے اس پر شدید تنقید کی، اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزی اور خطے میں مزید تنازعہ کی بنیاد قرار دیا تھا۔
مصر اور اردن کی مخالفت کے باوجود ٹرمپ نے بالآخر اپنے موقف میں نرمی اختیار کی اور اس منصوبے کو محض تجویز کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان کے اس ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے پر عالمی سطح پر تنقید کے دباؤ کے سامنے ہار گئے ہیں۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے تقریباً 50 ہزار فلسطینی شہید اور 2 لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان عارضی سیز فائر ہونے کے باوجود قیدیوں کے تبادلے کی کارروائیاں جاری ہیں۔
اس غیر متوقع موڑ نے اس منصوبے کو ایک نیا رخ دیا ہے اور اب دنیا بھر میں غزہ کی صورتحال پر توجہ مرکوز ہے۔
مزید پڑھیں : یوکرینی صدر ملکی معدنیات امریکا پر قربان کرنے کو تیار ہوگئے