پاکستان کے شمالی پنجاب کے لوگوں کیلئے یورپ جنت ہے، یہاں سے گھروں میں صرف عورتیں ملتی ہیں مرد سارے سمندرپار رہتے ہیں، یہاں ایک گاؤں تو ایسا ہے جس کے بچے بچپن سے ہی باہر منتقل ہونے کے خواب آنکھوں میں سجالیتے ہیں، زیادہ لوگ غیر قانونی طریقوں سے باہر جاتے ہیں، کئی تو اس کوشش میں سمندری مخلوق کی خوراک بن جاتے ہیں۔
بی بی سی اردو کے مطابق ہر سال 80,000 سے 100,000 پاکستانی بہتر معاشی مواقع کے لئے غیر قانونی طور پر ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ سفر خطرات اور جان لیوا حالات سے بھرا ہوتا ہے جس میں بے رحم اسمگلر ان افراد کا استحصال کرتے ہیں۔ ان افراد کو غیر قانونی تارکینِ وطن بھی کہا جاتا ہے۔
لفظ ‘ڈنکی’ جو انسانی اسمگلنگ سے متعلق استعمال ہوتا ہے ایک پنجابی محاورے سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے غیر قانونی طور پر کسی جگہ جانا جیسے کہ ایک گدھے کی طرح چھلانگ لگانا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق سیف اللہ نام کا نوجوان بھی ایسا تھا جواٹلی جانے کے لیے غیر قانونی طور پر کشتی کے حادثے میں ہلاک ہو گیاتھا۔
اس کی والدہ بتاتی ہیں کہ سیف اللہ ایک محنت کش تھا اور گھر کی مالی حالت بہتر کرنے کے لیے ملک سے باہر جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔
وہ اپنی بہنوں کی شادی اور گھر کی حالت بہتر بنانے کی امیدیں لگا کر روانہ ہوا تھا۔ اپنے سفر کے دوران اس نے کئی مشکلات برداشت کیں جیسے پیدل چلنا اور کم کھانا پینا اور آخرکار اس کی زندگی کا یہ سفر آخری سفر ثابت ہوا۔
اس کی والدہ کہتی ہیں کہ اب وہ اس خطرناک سفر کی حمایت نہیں کرتیں اور دوسروں کو ایسی کوششوں سے روکنے کی نصیحت کرتی ہیں۔
اسی طرح مدثر علی نامی شخص بھی اپنے غیر قانونی سفر کی کہانی سناتے ہیں جس میں انھیں جسمانی تشدد، دھوکہ دہی اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑا اور انھوں نے کئی مرتبہ اس راستے کو اختیار کیا لیکن ایک مرتبہ واپس آ کر انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی ایسی غلطی نہیں کریں گے۔
مدثر علی دوسرے لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ایجنٹس کی طرف سے دکھائے گئے سبز باغ حقیقت سے بہت مختلف ہیں۔ یہ دونوں داستانیں غیر قانونی ہجرت کے خطرات اور اس کے باعث خاندانوں کی زندگیوں پر پڑنے والے گہرے اثرات کو اجاگر کرتی ہیں۔
فروری 2024 میں ایک جہاز جو ترکی سے لیبیا کے راستے اٹلی جاتے ہوئے غرق ہو گیا تھا جس میں پاکستانی مسافر بھی سوار تھے۔
پولیس کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ انہوں نے اس راستے پر سفر کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد کو جہاز کے غرق ہونے تک کیوں نہیں سمجھا۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی ہے کہ کئی مسافر جائز دستاویزات اور ویزوں کے ساتھ دبئی یا مصر کے لیے پرواز کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔
پاکستان غیر قانونی ہجرت کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ سال 19,000 افراد کو بیرون ملک جانے سے روکا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد بلال (شعبہ ابلاغیات ننکانہ صاحب کریجوایٹ کالج) نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں خاص کر شمالی پنجاب میں بے روزگاری، کمزور معیشت اور بہتر معیارِ زندگی کی خواہش نوجوانوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے پر مجبور کرتی ہے۔ یورپ میں معاشی استحکام، فلاحی نظام اور بہتر مواقع کی کشش انہیں ہر ممکن طریقے سے وہاں پہنچنے کی ترغیب دیتی ہے۔”
ڈاکٹر بلال نے مزید کہا کہ حکومت پاکستان نے غیر قانونی ہجرت کے خلاف کریک ڈاؤن اور انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کچھ اقدامات کیے ہیں، مگر یہ مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔
ان کے مطابق “سخت قوانین کے نفاذ اور نوجوانوں کے لیے مقامی مواقع پیدا کیے بغیر اس رجحان میں کمی ممکن نہیں۔“
ڈنکی لگانے کی مختلف مذہبی، سیاسی، اور اقتصادی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کا تعلق مختلف معاشرتی اور ثقافتی پس منظر سے ہوتا ہے۔
پاکستان میں بعض فرقوں میں مذہبی رہنماؤں کی ہدایات کے تحت ڈنکی لگانے کو روحانی ترقی یا عقیدے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثلا میانمار حکومت کے مظالم سے تنگ ہزاروں افراد ڈنکی لگاکر بنگلہ دیش پہنچے تھے ان میں متعدد راستے میں ہی ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔
کبھی کبھار کام کے حالات یا معاشی فائدے کی بنیاد پربھی افراد ڈنکی لگاکر ملک سے باہر جاتے ہیں۔
بعض ثقافتوں یا علاقوں میں مزدوروں یا کام کرنے والوں کو جسم پر نشان لگانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ کام کی جگہ تک پہنچ سکیں اور انہیں مخصوص حقوق یا مراعات دی جا سکیں۔
اس کے علاوہ کچھ مقامات پر مخصوص نشان یا علامات معاشی یا تجارتی شناخت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جو کسی خاص کاروبار یا صنعت کے افراد کے درمیان تعلقات اور شناخت کا ذریعہ بنتی ہیں۔
معاشی، قانونی، سماجی، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی جیسے معاملات بھی ڈنکی کا باعث بنتے ہیں حقیقت میں یہ غیر قانونی کام مقامی معیشت پر دباؤ ڈالتا ہے، قانونی مسائل پیدا کرتا ہے اور اس سے افراد کو استحصال کا سامنا ہوتا ہے۔
اس کے حل کے لیے قانونی ہجرت کے راستوں کی فراہمی، سرحدوں کی بہتر نگرانی، تعلیمی پروگرامز، بین الاقوامی تعاون اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت قوانین کی ضرورت ہے۔
ان اقدامات سے غیر قانونی ہجرت کو کم کرنے اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔
ڈاکٹر شفاعت علی ملک ماہر ابلاغیات نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “قانونی امیگریشن کے پیچیدہ اور مشکل طریقہ کار کی وجہ سے لوگ غیر قانونی راستے اپناتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ اگر ویزا پالیسیز کو آسان بنایا جائے، ورک پرمٹس میں اضافہ کیا جائے اور شفاف امیگریشن نظام متعارف کرایا جائے تو ڈنکی کے رجحان میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔
ڈاکٹر شفاعت علی نے مزید کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں کو مقامی روزگار کے بہتر مواقع فراہم کر کے ڈنکی کو
“پاکستان میں صنعتی ترقی، ہنر مند افرادی قوت کے لیے تربیتی پروگرامز اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تو نوجوانوں کی بیرون ملک جانے کی خواہش کم ہو سکتی ہے۔ جب مقامی سطح پر اچھی ملازمتیں ہوں گی تو لوگ خطرناک راستے اپنانے سے گریز کریں گے۔“
انہوں نے اس گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ “میڈیا نے ڈنکی کے خطرات کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن مزید تحقیقاتی رپورٹس اور آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔ تعلیمی ادارے بھی اگر اس موضوع کو نصاب میں شامل کریں تو نوجوانوں کو بہتر فیصلہ سازی میں مدد مل سکتی ہے۔”
دوسری جانب ڈاکٹر بلال نے اس پر زور دیا کہ غیر قانونی ہجرت کے دوران تارکین وطن کو درپیش سب سے بڑے خطرات میں جان لیوا سمندری سفر، بھوک، تشدد اور جنسی استحصال شامل ہیں۔ ان خطرات کو روکنے کے لیے حکومتوں کو آگاہی مہمات، قانونی ہجرت کے مواقع اور انسانی اسمگلنگ کے خلاف مزید سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر بلال نے مزید کہا کہ غیر قانونی ہجرت ترقی پذیر ممالک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ یہ ہنر مند افرادی قوت کے نقصان، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ملک کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے۔ عالمی برادری کو مل کر اس مسئلے کا دیرپا حل نکالنا ہوگا۔