Follw Us on:

بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ

بی بی سی نے جمعرات کو اپنی ڈاکیومنٹری غزہ: ‘ہوو ٹو سروائیو اے وارزون’ میں “سنگین خامیوں” پر معذرت کی۔

جب یہ خبر سامنے آئی کہ اس ڈاکیومنٹری میں ایک فلسطینی بچہ، جو غزہ کے حالات پر روشنی ڈالتا ہے، یہ بچہ دراصل ایک سابق فلسطینی وزیر کا بیٹا ہے۔ اس بات پر اسرائیلی حمایت یافتہ گروپوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

یہ ڈاکیومنٹری، جو ‘بی بی سی ٹو’ پر نشر ہوئی تھی، 14 سالہ عبداللہ الیازوری کی زندگی کو دکھاتی ہے جو غزہ میں جنگی حالات میں گزارے گئے اپنے دنوں کو بیان کرتا ہے۔

تاہم، جب یہ انکشاف ہوا کہ عبداللہ کے والد، ڈاکٹر ایمن الیازوری حماس کے زیر انتظام غزہ حکومت کے سابق نائب وزیر زراعت تھے تو بی بی سی نے ڈاکیومنٹری کو اپنے اسٹریمنگ سروس سے ہٹا دیا۔

بی بی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ اس ڈاکیومنٹری کے بنانے میں “سنگین خامیاں” تھیں اور اس پر مکمل طور پر معذرت کی۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ یہ خامیاں صرف پیداوار کمپنی کی نہیں بلکہ ان کی اپنی بھی تھیں۔ بی بی سی کا کہنا تھا، “ہم اس بات کی مکمل ذمہ داری لیتے ہیں اور اس سے ہمارے ادارے کی ساکھ پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس پر معذرت خواہ ہیں۔”

بی بی سی کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ پیداوار کمپنی، ہویو فلمز، کو ڈاکیومنٹری کے دوران بار بار سوالات کیے گئے تھے کہ آیا اس میں کوئی تعلق حماس کے ساتھ ہے، تاہم پیداوار کمپنی نے اس حقیقت کو چھپایا کہ عبداللہ کے والد حماس حکومت کے وزیر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: میانمار کیمپ میں پھنسے غیر ملکیوں کے لئے مشکلات : وطن واپس جانے کے لئے رقم کی کمی کا سامنا

یہ انکشاف ہونے کے بعد اسرائیل کے حامی گروپوں کی جانب سے بی بی سی پر شدید تنقید کی گئی۔

کیمپیئن اگینسٹ اینٹی سی میٹیزم (CAA) کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ “بی بی سی کی جانب سے اس طرح کی کمزوری اور احتساب کی کمی ایک نئے حد تک پہنچ چکی ہے، جہاں یہ دہشت گردوں اور ان کے حمایتیوں کا ترجمان بن چکا ہے۔”

ان الزامات نے بی بی سی کے خلاف لندن کے ہیڈکوارٹر کے باہر احتجاج کو بھی جنم دیا۔

برطانوی وزیر ثقافت ‘لیزا نانڈی’ نے پارلیمنٹ میں اس معاملے پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بی بی سی سے یہ “پختہ ضمانتیں” طلب کی ہیں کہ حماس کو اس ڈاکیومنٹری سے کسی بھی قسم کا مالی فائدہ نہیں پہنچا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ “بی بی سی کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ان کی جانچ پڑتال کا عمل کٹھن ہو اور ایسا کچھ بھی سامنے نہ آئے جس سے دہشت گردوں کو تقویت ملے۔”

یہ بھی پڑھیں: برفانی تودہ کی زد میں آنے سے 57 مزدور پھنس گئے، ریسکیو آپریشن جاری

دوسری طرف ‘ آرٹس فار فلسطین’ کے تحت ایک کھلا خط بھی جاری کیا گیا جس میں ڈاکیومنٹری کی ہٹانے کی مخالفت کی گئی۔

اس کھلے خط پر کئی معروف شخصیات نے دستخط کیے جن میں انگلینڈ کے سابق فٹ بالر گیری لائنیکر اداکار رز احمد، اور مشہور فلم ساز کین لوچ شامل تھے۔ ان شخصیات نے اس فیصلے کو غیر منصفانہ اور فلسطینیوں کے حقوق کو داغدار کرنے والا قرار دیا۔

خط میں کہا گیا کہ “غزہ میں حکومتی عہدوں پر فائز فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ساتھ ملانا غلط اور غیر انسانی ہے۔”

اس میں یہ بھی کہا گیا کہ بی بی سی کا یہ قدم صحافتی معیار کو کمزور کرتا ہے اور فلسطینیوں کی آوازوں کو دبانے کا سنگین اقدام ہے۔

کھلے خط میں ایک اور نکتہ یہ اٹھایا گیا کہ اس معاملے نے عبد اللہ الیازوری جیسے نوجوان کی حفاظت کے حوالے سے بی بی سی کے اپنے بین الاقوامی پالیسیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ یہ کہا گیا کہ بچوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک غیر اخلاقی اور خطرناک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ “ایک بچے کی گواہی کو محض اس کے والد کے تعلقات کی بنیاد پر رد کرنا غیر اخلاقی ہے۔”

بی بی سی اب اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا اس پروگرام کے بنانے میں کوتاہیاں صرف زبان اور ترجمہ کی غلطیوں تک محدود تھیں یا اس میں مزید خامیاں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس بات کا بھی جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا اس سے متعلق مزید کوئیڈس ڈسپلنری  کارروائی کی ضرورت ہے۔

یہ سارا معاملہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ میڈیا اور صحافت کا کردار کس قدر حساس ہوتا ہے، خصوصاً جب یہ فلسطینیوں کی کہانیوں کو پیش کرنے کی بات ہو۔

اس سکینڈل نے عالمی سطح پر صحافتی آزادی اور ذمہ داری پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور یہ معاملہ میڈیا کی غیر جانبداری کی اہمیت کو دوبارہ اجاگر کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: شمالی کوریا کا جدید کروز میزائل تجربہ: جوہری طاقت اور دفاعی عزم کا مظاہرہ

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس