ہمارے ہاں دیہات، قصبات میں عام رواج ہے کہ اگر کوئی مریض صحت یاب نہ ہو رہا ہو، حکیم، ہومیو پیتھک اور محلے، شہر کے ڈاکٹروں سے معاملہ نہ سنبھلے، مریض کو قریبی بڑے شہر لے جا کر دکھایا جائے اور تب بھی اگر مریض کی حالت نہ سدھرے تو پھر بڑے بوڑھوں میں سے کوئی مشورہ دیتا ہے کہ اسے کسی سیانے کو دکھاؤ۔
یہ سیانا ٗکوئی بھی ہوسکتا ہے، دم درود کرنے والا کوئی بزرگ، کسی قدیمی ٹوٹکے کا مالک کوئی عمر رسیدہ آدمی یا پھر کوئی دوردراز کا ایسا حاذق حکیم جس کے نسخے صدیوں سے سینہ در سینہ چلے آ رہے ہیں اور جس کی شہرت بھی اسی طرح پھیلی ہو۔
مسلم لیگ ن کا بھی یہی حال ہے۔ یہ پارٹی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت واپس حاصل کرے، اس کے لیے ہر ممکن نسخے، ہر تجویز اور مشورے پر عمل ہو رہا ہے، (براہ کرم لفظ مقبولیت کو ماضی بعید کے صیغے میں پڑھیں، انگریزی میں اسے شائد پاسٹ پرفیکٹ کہتے ہیں)۔
بدقسمتی سے ان تمام کوششوں کے نتائج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ن لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کسی قسم کا سحر ان پر پھونکا گیا ہے یا کچھ اور۔ ان سے بات بن نہیں رہی۔
ویسے اس کی اصل ذمہ داری خود ن لیگ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ آج کے دور میں یعنی دو ہزار پچیس (2025) میں نوے کے عشرے کی سیاست کر رہی ہے۔ وہی پرانے ہتھکنڈے ، حربے، حیلے، ہوشیاریاں۔ یہ سب کچھ اتنی آوٹ آف ڈیٹ اور فرسودہ حرکتیں لگتی ہیں کہ اب اس پر تنقید کرنے کا بھی جی نہیں چاہتا۔ یعنی یہ تنقید کے کم از کم لیول پر بھی پورا نہیں اترتیں۔
مثال کے طور پر کون ہے جو آج کل بھی اخبارات پر بطور رشوت اشتہارات کی بھرمار کر دے؟ ساٹھ ساٹھ صفحات کے سپلیمنٹ وہ بھی اخبارات کو جنہیں شائد وہاں کام کرنے والے صحافی بھی اب دلچسپی سے نہیں پڑھا کرتے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں پرنٹ میڈیا تو بہت پہلے ختم ہوا، اب تو الیکٹرانک میڈیا کی بھی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
لوگ خبر اور رائے کے لئے ڈیجیٹل میڈیا (نیوز ویب سائٹس، ولاگ وغیرہ) کی طرف دیکھتے ہیں یا پھر اپنی فیس بک نیوز فیڈ اور واٹس ایپ گروپس کی طرف جاتے ہیں۔ جسے زیادہ دلچسپی ہو، وہ وی پی این چلا کر (ایکس) ٹوئٹر ٹرینڈز دیکھ لیتا ہے۔
ان سپلیمنٹس کو پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوا کہ فوری طور پر لاہور، پنجاب کا ٹکٹ کٹایا جائے اور بقیہ تمام عمر وہیں گزاری جائے۔ پھر اچانک یاد آگیا کہ میں پچھلے اٹھائیس برسوں سے لاہور ہی میں مقیم ہوں اور سال ڈیڈھ سے تو پنجاب سے باہر بھی نہیں گیا۔ جو کارنامے مریم نواز شریف کے گنوائے گئے ہیں، معلوم نہیں وہ کس پنجاب میں سرانجام دئیے گئے؟
بھارتی پنجاب تو ظاہر ہے نہیں ہو گا، پھر یقینی طور پر خیالی پنجاب ہی ہو سکتا ہے۔ خیر یہ تو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے کارنامے تھے جن پر کبھی الگ سے بات کریں گے۔
سردست تو جناب وزیراعظم شہباز شریف کی بات کر لیتے ہیں۔ چند دن پہلے شہباز شریف نے فرمایا کہ میں نے انڈیا کو پیچھے نہ چھوڑ دیا تو میرا نام بدل دینا۔ فیس بک پر ایک نوجوان کی پوسٹ دیکھی جس نے کچھ وقت لگا کر ریسرچ کی اور اعداد وشمار کے ساتھ ثابت کیا کہ پاکستان انڈیا کو پیچھے تب ہی چھوڑ سکتا ہے جب کرشماتی سپیڈ سے ہماری اکانومی ترقی کرےاور بھارتی معیشت اسی ایک جگہ پر رک جائے، تب بھی پاکستانی موجودہ جی ڈی پی کے حساب سے ستر سے نوے سال میں انڈیا کو کراس کرے گا۔
اس ریسرچ کے مطابق اگر پاکستان 10 فیصد سالانہ کی جناتی ترقی کی رفتار تک پہنچ جائے (جو کہ ناممکن ہے کہ ایسی صورت میں پاکستان کی امپورٹ خوفناک حد تک بڑھ جائے گی، تجارتی خسارہ بھیانک شکل اختیار کر لے گا، زرمبادلہ ختم ہوجائے گا اور ہم دیوالیہ ہوجائیں گے، لیکن اگر کسی معجزے سے ایسا نہ ہو) تب بھی ہمیں 20 پچیس سال لگ جائیں گے، وہ بھی تب جب اس پورے عرصے میں بھارتی معیشت بیٹھ جائے۔ یعنی اس اعتبار سے پاکستان کبھی معاشی طور پر انڈیا سے آگے نہیں نکل سکتا۔
سوال اب بس یہی ہے کہ شہبازشریف صاحب کا نام بدل کر کیا رکھا جائے؟ ہمارے ہاں عام طور سے لمبی لمبی چھوڑنے والوں کو شیخ چلی کہہ دیا جاتا ہے۔ اب پتہ نہیں میاں صاحب شیخ کہلانا پسند کریں گے یا نہیں۔
باتیں اتنی بڑی بڑی، دعوے ایسے بلند وبانگ اور حال یہ کہ کمزور حال معیشت، قرضوں سےہماری کمر ٹوٹنے کو ہے اور اس پر اتنے سارے نئے وزیر بنا لیے گئے ہیں۔ کابینہ میں اس قدر بڑے اضافے کی کیا تک اور جواز ہے؟ کوئی بھی نہیں۔ صرف ہارڈ کور ن لیگی ہی اس کا دفاع یا تاویل پیش کر سکتے ہیں۔
ایک سینئر صحافی جو ن لیگ کے سابق دور میں چیئرمین پیمرا بھی رہے، انہوں نے اس اضافے پر فرمایا ہے کہ وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ اس لیے کیا گیا ہے کہ کیونکہ اتحادیوں کی جانب سے حکومت پر مختلف اوقات میں پریشر ڈالا جاتا تھا کہ کابینہ میں توسیع کی جائے۔
انہوں نے مزید یہ بھی فرمایا کہ کابینہ میں توسیع سے حکومت اور بھی مضبوط ہو گئی ہے، اتحادیوں کا اعتماد بڑھ گیا ہے اور شکایات کم ہوئی ہیں۔
ن لیگ کی حمایت اپنی جگہ لیکن اگر سینئر صحافی اس فہرست پر نظر ڈال لیتے تو سمجھ آ جاتی کہ ان گروپوں کو اگر نمائندگی نہ بھی دی جاتی تو ان میں کہاں اتنی جرات تھی کہ بغاوت کر سکتے۔
اسلام آباد سے طارق فضل چودھری، عقیل ملک، پنڈی سے حنیف عباسی جبکہ رانا مبشر، معین وٹو، عون چودھری، جنید انور وغیرہ کو بھی حصہ بنایا گیا۔ شزہ فاطمہ اور علی پرویز ملک بھی شامل ہیں۔ لودھراں سے عبدالرحمن کانجو کو بھی وزیر بنایا گیا۔ میلسی سے تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے جیتنے والے اورنگ زیب کھچی کو وفاداری تبدیل کرنے پر انعام سے نوازا گیا۔
یہی باجوڑ سے مبارک زیب کو بھی اکاموڈیٹ کر کے کیا گیا۔ چند ایک مزید اور بھی ایسے ہی فیصلے ہوئے۔ چلیں مصطفیٰ کمال اور خالد مگسی کو وزیر بنانے پر اتحادیوں کا دباؤ ہوسکتا ہے، ن لیگ کےاپنے ارکان اسمبلی کو یوں مال مفت دل بے رحم کے انداز میں اکاموڈیٹ کرنا سراسر زیادتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض اوقات ناقدین کا منہ بند کرنے کے لئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں وزیر یا وزرا تنخواہ نہیں لیں گے۔ یہ صرف ایک ڈھونگ ہی ہے۔ ایک وزیر کے دیگر لوازمات اور سہولتیں وغیرہ کروڑوں میں پڑتے ہیں۔ کابینہ پر اتنا بوجھ ڈالنا دراصل اکانومی پر بوجھ ڈالنا ہے۔ وہ بھی ایسی صورت میں کہ ہم آئی ایم ایف کو کہہ رہے ہیں کہ حکومت اپنے اخراجات کم کر رہی ہے۔ پچیس ستائیس نئے وزیر، مشیر، معاون خصوصی بنانے سے اخراجات کم ہوں گے ؟
ن لیگی حکومت کا یہ صریحاً ایک غیر مقبول فیصلہ ہے، اس سے عوامی مخالفت اور ناراضی میں اضافہ ہوگا، حکومت پر تنقید بھی بڑھے گی۔ ان کے دعوؤں کی غیر سنجیدگی مزید ایکسپوز ہوگئی۔
ہرگزرتے دن کے ساتھ ، مسلم لیگ ن کے تمام تر حربوں، ہوشیاری اور سیاسی چالبازیوں کے باوجود ان کا امپیکٹ نہیں بن پا رہا۔ عوام میں ان کی پزیرائی نہیں بڑھ رہی اور ان کا ہر حربہ کارگر ثابت نہیں ہو رہا۔ ہم تو ایسے میں یہی مشورہ دے سکتے ہیں کہ حکمران جماعت کو کسی ‘ سیانے’ کو دکھانے کی ضرورت ہے۔ بس یہ احتیاط کریں کہ وہ سیانا پنڈی کا نہ ہو۔ پنڈی والوں کی دوا استعمال کر کے تو ان کا یہ حال بنا ہے۔