پاکستان میں موروثی یا خاندانی سیاست کو عمومی طور پر منفی انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ رجحان صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دیگر ممالک، خاص طور پر ایشیائی ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں اس کا تناسب دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
بی بی سی کی 2018 میں شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کے انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹیوز نے پاکستان میں موروثی سیاست کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا تھا۔ اس تحقیق کے مطابق 1996 میں امریکی کانگریس میں موروثی سیاست کا تناسب تقریباً چھ فیصد تھا، جب کہ 2010 تک انڈیا کی لوک سبھا میں یہ شرح 28 فیصد تک پہنچ گئی۔ اس کے برعکس پاکستان میں 2018 کے الیکشن تک قومی اور پنجاب اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فیصد تھا، جو دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔
تحقیق میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان میں موروثی سیاست کی بنیادی وجہ وہ پالیسیاں اور قوانین ہیں جو گزشتہ تین دہائیوں سے تقریباً 400 بااثر خاندانوں کے حق میں بنتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ خاندان قومی وسائل اور نجی شعبوں میں اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں، جس کے باعث سیاسی میدان میں کوئی بڑی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آتی اور موروثی سیاست کو مزید تقویت ملتی ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر سیاسات ڈاکٹر زاہد حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں کسی نظریے یا تنظیمی ڈھانچے پر نہیں، بلکہ شخصیات اور خاندانوں کے گرد گھومتی ہیں۔ انتخابات میں جیت کے لیے مالی وسائل اور مقامی اثر و رسوخ اہم ہوتے ہیں، جو مخصوص خاندانوں کے پاس زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے موروثی سیاست پروان چڑھتی ہے۔
پاکستان میں بھٹو اور شریف خاندان کی سیاسی جڑیں اس قدر مضبوط ہو چکی ہیں کہ ان کا خاتمہ بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایک فرد سیاسی منظرنامے سے ہٹ جاتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرا تیار ہوتا ہے۔
اگر بھٹو خاندان کی بات کی جائے تو یہ ممکن تھا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو بے نظیر بھٹو سیاست میں نہ آتیں۔ تاہم، جب وہ سیاست میں آئیں تو انہوں نے اپنی جماعت کو مضبوط کیا، بے نظیر کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت وراثتی طور پر ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو منتقل ہو گئی۔ اسی خاندانی سیاست کے تسلسل میں عاصمہ بھٹو کو پاکستان کی خاتونِ اول کا درجہ حاصل ہوا اور اب بھی یہی دکھائی دے رہا ہے کہ یہ پارٹی اسی خاندانی سیاست کی بنیاد پر ہی مستقبل میں بھی نسل در نسل منتقل ہو گی۔
دوسری طرف شریف خاندان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو نواز شریف نے اپنے خاندان کی سیاسی بنیاد رکھی، جب کہ ان کے والد کا سیاست میں کوئی کردار نہیں تھا۔نواز شریف نے پہلے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر خود کو نامزد کیا، بعد ازاں خود کو وزیراعظم کے عہدے کے لیے چنا، جب کہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اپنے بھائی شہباز شریف کے لیے چھوڑ دی۔
وقت کے ساتھ ساتھ شہباز شریف نے اپنی قیادت کو مستحکم کیا ،خود وزیراعظم کے عہدے کے لیے منتخب ہوگے اور اپنے بیٹے حمزہ شہباز کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تیار کیا، جب کہ اب شہباز شریف پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ دوسری جانب افواہیں یہ بھی ہیں کہ اگلی بار پاکستان کی وزیراعظم مریم نواز ہوں گی۔
شریف اور بھٹو خاندان کے علاوہ دیگر خاندان بھی ان موروثی خاندان کے طور پر جانے جاتے ہیں جن میں پنجاب میں چوہدری خاندان، کے پی کے میں خٹک خاندان، بلوچستان میں بگٹی اور مگسی خاندان سر فہرست ہیں، جنہوں نے اپنی خاندانی روش کو قائم رکھا ہوا ہے۔
ماہر عمرانیات ڈاکٹر عثمان صفدر نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ ان خاندانوں کو صرف عوامی مقبولیت کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ دراصل روایتی سیاست میں جاگیرداری، مذہبی اثر و رسوخ اور برادری کی وابستگیاں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ یوں سیاسی طاقت چند خاندانوں کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔
پاکستان میں موروثی سیاست کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ اس کی جڑیں قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی مضبوط ہو ئی، جاگیردارانہ نظام نے اس رجحان کو مزید فروغ دیا اور سیاسی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومنے لگی۔ جمہوری نطام میں خاندانی سیاست یا موروثی سیاست کی جڑیں قائم رہنا ممکن نہیں ہوتیں، مگر پاکستان میں جمہوریت نے موروثی سیاست کو مزید تقویت دی۔
ڈاکٹر زاہد حسن نے موروثی سیاست اور جمہوریت کے درمیان تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موروثی سیاست جمہوریت کی روح کے خلاف ہے، کیونکہ یہ قیادت کو صرف چند خاندانوں تک محدود رکھتی ہے۔ اس کے باعث میرٹ کا قتل ہوتا ہے، نئی قیادت ابھرنے کے مواقع نہیں ملتے اور پالیسی سازی عوامی مفاد کے بجائے مخصوص خاندانوں کے مفاد میں کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت میں موروثی سیاست صرف مخصوص خاندانوں کے اقتدار کو مضبوط کرتی ہے۔ جب حکمرانی کا معیار وراثت بن جائے تو گورننس، پالیسی سازی اور شفافیت متاثر ہوتی ہے، جس کی وجہ سے عوام بنیادی مسائل سے محروم رہتے ہیں۔
جمہوری حکومتوں نے موروثی سیاست کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا، جب کہ مارشل لا کے ادوار میں بھی یہ رجحان ختم ہونے کے بجائے مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔ سابق صدر جنرل ایوب خان کے بیٹے گوہر ایوب پاکستان کے وزیر خارجہ اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے، جب کہ اب گوہر ایوب کے بیٹے عمر ایوب آج بھی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح جنرل ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق بھی پاکستان کی سیاست میں متحرک ہیں۔
پاکستان میں موروثی سیاست نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے اور مستقبل قریب میں اس کے ختم ہونے کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔ سیاسی میدان میں عام آدمی کے لیے جگہ محدود ہوتی جا رہی ہے، جب کہ بااثر خاندانوں کی اجارہ داری برقرار ہے۔ یہ رجحان پاکستانی جمہوریت کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کر رہا ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا اس کا کوئی حل ممکن ہے؟
ڈاکٹر عثمان صفدر نے اس کا حل بتاتے ہوئے کہا کہ موروثی سیاست کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت، شفاف انتخابات اور عوامی شعور کی بیداری ضروری ہے۔ جب تک لوگ قابلیت کی بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے اور جماعتیں قیادت کو وراثت کے بجائے کارکردگی پر منتخب نہیں کریں گی، یہ نظام چلتا رہے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سیاست میں فی الحال کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی، کیونکہ موروثی سیاست ایک مضبوط روایت بن چکی ہے۔ تاہم، اگر عوام میں سیاسی شعور بڑھا، تعلیم عام ہوئی اور متبادل قیادت سامنے آئی، تو اگلی دہائی میں ہم اس نظام میں دراڑیں پڑتی دیکھ سکتے ہیں۔