امریکہ کی جانب سے چین پر تازہ ترین تجارتی محصولات کے نفاذ کے بعد، چین نے بھی فوری ردعمل دیتے ہوئے امریکی زرعی اور غذائی مصنوعات پر 10 سے 15 فیصد تک اضافی درآمدی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کو ایک مکمل تجارتی جنگ کے مزید قریب کر دیا ہے۔
چین نے نہ صرف امریکی مصنوعات پر محصولات بڑھائے بلکہ قومی سلامتی کے خدشات کو جواز بناتے ہوئے 25 امریکی کمپنیوں پر برآمدات اور سرمایہ کاری کی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔ تاہم، بیجنگ نے اس بار کسی بڑی امریکی کمپنی کو نشانہ بنانے سے گریز کیا، جیسا کہ اس نے 4 فروری کو ٹرمپ انتظامیہ کی محصولات کے جواب میں کیا تھا۔
چین کے تازہ اقدام میں ان 25 کمپنیوں میں سے 10 کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے تائیوان کو اسلحہ فروخت کیا تھا۔ بیجنگ ہمیشہ سے تائیوان کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے اور امریکہ کی جانب سے تائیوان کو اسلحہ فراہم کرنے کے خلاف سخت موقف اختیار کرتا آیا ہے۔
یہ تجارتی کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ ہفتے چین پر مزید 10 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی حقیقت کا روپ دھار گئی اور یہ نیا محصول 4 مارچ کو صبح 5 بج کر 1 منٹ جی ایم ٹی پر نافذ کر دیا گیا۔ اس اضافے کے بعد چین کی متعدد مصنوعات پر امریکہ میں مجموعی 20 فیصد محصول لاگو ہو چکا ہے۔
امریکی حکومت کا موقف ہے کہ چین کو منشیات کی اسمگلنگ، خاص طور پر فینٹینیل کی غیر قانونی ترسیل کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کرنے چاہیے تھے، مگر بیجنگ نے اس الزام کو “بلیک میلنگ” قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ اس کے ہاں دنیا کے سخت ترین انسداد منشیات قوانین موجود ہیں اور امریکہ بلاوجہ اسے نشانہ بنا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اب بھی تجارتی کشیدگی کم کرنے کے لیے مذاکرات کا خواہاں ہے، مگر واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان “ایک کے جواب میں دوسرا وار” کی حکمت عملی دونوں ممالک کو ایک وسیع پیمانے پر تجارتی جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔
امریکہ کے تازہ محصولات ان سیکڑوں چینی مصنوعات پر مزید بوجھ ڈال رہے ہیں جو پہلے ہی سخت امریکی تجارتی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں بھی چین کو شدید معاشی دباؤ کا سامنا رہا، جب امریکہ نے چینی سیمی کنڈکٹرز پر ٹیرف دوگنا کر کے 50 فیصد کر دیا تھا اور چین میں تیار کردہ برقی گاڑیوں پر محصولات میں چار گنا اضافہ کرتے ہوئے 100 فیصد سے زائد کر دیا تھا۔
اب ٹرمپ کی جانب سے 20 فیصد کا نیا ٹیرف ایسے امریکی صارفین کی مصنوعات پر بھی لاگو ہوگا جو پہلے محفوظ سمجھی جا رہی تھیں، ان میں اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، ویڈیو گیم کنسولز، اسمارٹ واچز، اسپیکرز اور بلوٹوتھ ڈیوائسز شامل ہیں، جو بڑے پیمانے پر امریکی مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں۔
چین نے اس فیصلے کے فوراً بعد جوابی کارروائی کی اور اعلان کیا کہ وہ 10 مارچ سے امریکہ سے درآمد ہونے والے چکن، گندم، مکئی اور کاٹن پر 15 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرے گا۔ اس کے علاوہ، سویابین، جوار، سور کا گوشت، گائے کا گوشت، سمندری خوراک، پھل، سبزیاں اور ڈیری مصنوعات پر بھی 10 فیصد اضافی محصول لاگو ہوگا
۔ چین کی وزارت خزانہ نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ یہ اقدامات امریکہ کی جانب سے عائد کردہ نئے محصولات کے خلاف ناگزیر ردعمل ہیں۔
چینی وزارت تجارت نے ایک الگ بیان میں امریکی اقدامات کو عالمی تجارتی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کے اصولوں کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ یکطرفہ امریکی ٹیرف اقدامات چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی اور تجارتی تعاون کی بنیادوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
چین کے بیان میں مزید کہا گیا کہ وہ اپنے جائز حقوق اور مفادات کا بھرپور دفاع کرے گا اور کسی بھی اقتصادی جبر کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔
یہ تجارتی جنگ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ عالمی معیشت پر بھی سنگین اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اگر دونوں ممالک مذاکرات کے ذریعے تنازع کو حل کرنے میں ناکام رہے تو ماہرین کے مطابق، آنے والے مہینوں میں عالمی منڈیوں میں مزید عدم استحکام دیکھنے کو مل سکتا ہے۔