Follw Us on:

افغان اور پاکستانی شہریوں کے لیے امریکہ کے دروازے بند ہونے کا امکان

مظہر اللہ بشیر
مظہر اللہ بشیر
اس نئی پابندی کے ممکنہ نفاذ کے باعث امریکہ میں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں افغان اور پاکستانی شہری شدید بے یقینی اور خدشات کا شکار ہیں۔
اس نئی پابندی کے ممکنہ نفاذ کے باعث امریکہ میں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں افغان اور پاکستانی شہری شدید بے یقینی اور خدشات کا شکار ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک نئی سفری پابندی عائد کیے جانے کا امکان ہے جس کے تحت افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کی امریکہ آمد پر مکمل یا جزوی پابندی لگ سکتی ہے۔

 

ذرائع کے مطابق یہ اقدام اگلے ہفتے سے نافذ العمل ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد ان ممالک کے سیکیورٹی اور جانچ پڑتال کے طریقہ کار پر مبنی حکومتی جائزے پر رکھی گئی ہے۔

 

یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت کے دوران عائد کردہ سفری پابندی کی یاد دلاتا ہے جس میں سات مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس پالیسی کو مختلف ترامیم کے بعد 2018 میں امریکی سپریم کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔

 

سابق صدر جو بائیڈن، جنہوں نے ٹرمپ کے بعد عہدہ سنبھالا، نے 2021 میں اس پابندی کو منسوخ کر دیا تھا اور اسے امریکی قومی ضمیر پر ایک “داغ” قرار دیا تھا۔

 

ٹرمپ کی نئی پابندی کا براہ راست اثر ان ہزاروں افغان شہریوں پر پڑے گا جو بطور مہاجرین یا خصوصی امیگرنٹ ویزا (ایس آئی وی) ہولڈرز امریکہ میں آباد ہونے کے منتظر ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو امریکی افواج کے لیے کام کرنے کے باعث طالبان کے انتقامی حملوں کے خطرے سے دوچار ہیں۔

 

صدر ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس میں غیر ملکیوں کے امریکہ میں داخلے کی سخت نگرانی اور سیکیورٹی چیکنگ کے عمل کو مزید سخت کرنے کا حکم دیا گیا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ قومی سلامتی کے خطرے کا سدباب کیا جا سکے۔

 

اس حکم کے تحت امریکی کابینہ کے مختلف اداروں کو 12 مارچ تک ان ممالک کی فہرست فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جن کے شہریوں کی جانچ پڑتال کا عمل تسلی بخش نہیں ہے اور جہاں سے سفر کو مکمل یا جزوی طور پر معطل کرنے کی سفارش کی جا سکتی ہے۔

 

ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کو مکمل سفری پابندی کی فہرست میں شامل کیا جا چکا ہے جبکہ پاکستان کو بھی اس فہرست میں شامل کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ انصاف، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی اور قومی انٹیلی جنس کے دفتر، جو اس پالیسی کی نگرانی کر رہے ہیں، نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

 

جو افغان شہری بطور مہاجرین یا خصوصی امیگرنٹ ویزا ہولڈرز امریکہ میں آباد ہونے کے لیے کلیئر ہو چکے ہیں، وہ پہلے ہی انتہائی سخت سیکیورٹی جانچ پڑتال کے عمل سے گزر چکے ہیں اور انہیں دنیا کی سب سے زیادہ جانچی گئی آبادی میں شمار کیا جاتا ہے۔

 

امریکی محکمہ خارجہ کا وہ شعبہ جو ان مہاجرین کی آبادکاری کا ذمہ دار ہے، سفری پابندی سے خصوصی امیگرنٹ ویزا ہولڈرز کو استثنیٰ دلوانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر ذرائع کے مطابق اس درخواست کے منظور ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔

 

یہ اطلاعات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب افغانستان میں طالبان کو داعش کے علاقائی دھڑے کی بغاوت کا سامنا ہے جبکہ پاکستان بھی شدت پسند عناصر کی کارروائیوں سے نبرد آزما ہے۔ ٹرمپ کا یہ حکم نامہ ان کے دوسرے دورِ صدارت میں امیگریشن پالیسی کو سخت بنانے کے اقدام کا حصہ ہے۔

 

ٹرمپ نے اکتوبر 2023 میں ایک تقریر کے دوران اس پالیسی کا عندیہ دیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ غزہ، لیبیا، صومالیہ، شام، یمن اور دیگر ایسے علاقوں کے افراد کی امریکہ میں داخلے کو محدود کریں گے جہاں سے امریکی سلامتی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

 

ادھر، افغان مہاجرین کے انخلا اور آبادکاری پر کام کرنے والی تنظیم کے سربراہ شان وینڈائیور نے ان تمام افغان شہریوں کو جو امریکہ کا ویزا رکھتے ہیں، جلد از جلد سفر کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کے اندرونی ذرائع کے مطابق آئندہ ہفتے تک نئی سفری پابندی کا اطلاق ہو سکتا ہے، جو ان افغان شہریوں پر سنگین اثرات مرتب کرے گا جو امریکہ منتقلی کے منتظر ہیں۔

 

ذرائع کے مطابق تقریباً دو لاکھ افغان شہریوں کو امریکہ میں آباد ہونے کی منظوری دی جا چکی ہے یا وہ مہاجر اور خصوصی امیگرنٹ ویزا کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ یہ افراد جنوری 2024 سے افغانستان اور دیگر تقریباً 90 ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں، جن میں سے تقریباً 20 ہزار افراد پاکستان میں مقیم ہیں۔

 

اس دوران ٹرمپ انتظامیہ نے مہاجرین کے داخلے پر 90 دن کی پابندی اور اس پالیسی کے تحت مہیا کیے جانے والے فنڈز کو معطل کر دیا تھا، جس کے ذریعے ان افراد کی منتقلی کے لیے فضائی سفر کا انتظام کیا جاتا تھا۔

 

اس نئی پابندی کے ممکنہ نفاذ کے باعث امریکہ میں آباد ہونے کے منتظر ہزاروں افغان اور پاکستانی شہری شدید بے یقینی اور خدشات کا شکار ہیں۔

 

اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے فیصلے کو منسوخ کرنے کے بعد ٹرمپ کی حکومت اس پالیسی پر کس حد تک سختی سے عمل درآمد کرتی ہے اور کیا اس میں کسی قسم کی نرمی کی گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے یا نہیں۔

مظہر اللہ بشیر ملٹی میڈیا جرنلسٹ کی حیثیت میں پاکستان میٹرز کی ٹیم کا حصہ ہیں۔

مظہر اللہ بشیر

مظہر اللہ بشیر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس