امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ‘کیف اور ماسکو’ کے پاس امن معاہدے کے بغیر اس جنگ کو ختم کرنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
یوکرینی اور امریکی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اگلے ہفتے سعودی عرب میں روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے ایک امن فریم ورک پر بات چیت کی جائے گی۔
واشنگٹن نے اس ہفتے یوکرین کو فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ معطل کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان وائٹ ہاؤس میں ایک تلخ جھڑپ ہوئی تھی۔
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو رپورٹرز کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں یوکرینی حکام سے ملاقات کرنے کے لیے تیار ہیں جہاں امن معاہدے کے لیے ایک فریم ورک تیار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا میکسیکو اور کینیڈا پر تجارتی محصولات ایک ماہ کے لیے مؤخر کرنے کا اعلان
وٹکوف نے کہا کہ “ہم اب بات چیت کر رہے ہیں تاکہ یوکرینیوں سے ریاض یا جدہ میں ملاقات کی جا سکے، شہر ابھی تھوڑا تبدیل ہو رہا ہے، مگر سعودی عرب میں ہی ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک امن معاہدے کے لیے فریم ورک تیار کیا جائے اور ابتدائی طور پر جنگ بندی بھی ہو۔”
یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ وہ پیر کو سعودی عرب روانہ ہوں گے اور وہاں امریکی حکام سے بات چیت کریں گے۔
انہوں نے کہا ہے کہ “میں سعودی عرب جانے کا منصوبہ بنا رہا ہوں، جہاں میں سعودی ولی عہد سے ملاقات کروں گا اور اس کے بعد میری ٹیم امریکی شراکت داروں کے ساتھ کام کرے گی۔”
زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ یوکرین امن کے لیے سنجیدہ ہے اور جنگ کے خاتمے کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
یہ ملاقاتیں امریکی اور یوکرینی حکام کے درمیان 28 فروری کو ہونے والی ملاقات کے بعد پہلی اہم بات چیت ہوں گی جس میں زیلنسکی اور ٹرمپ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی تھی۔
لازمی پڑھیں: بڑی طاقتوں کی غنڈہ گردی قبول نہیں، چینی وزیر خارجہ
اس ملاقات کے بعد امریکی صدر نے یوکرین کو انٹیلی جنس شیئرنگ اور امداد فراہم کرنا معطل کر دیا تھا۔ تاہم، ٹرمپ نے منگل کو بتایا کہ انہیں زیلنسکی کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں یوکرینی صدر نے کہا ہے کہ وہ “جلدی سے مذاکرات کی میز پر آنا چاہتے ہیں”۔
جمعرات کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں فریقین، یوکرین اور روس اب ایک امن معاہدے کے لیے تیار ہیں۔
ٹرمپ نے کہا ہے کہ “میرے خیال میں یوکرین معاہدہ کرنا چاہتا ہے، کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن ہے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ روس بھی معاہدہ چاہتا ہے لیکن ایک مختلف انداز میں، اور وہ انداز صرف میں جانتا ہوں۔”
ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا کہ زیلنسکی نے حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس کی لڑائی پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور امریکہ کے شکر گزار ہیں۔
تاہم، وٹکوف نے اس بات پر تحفظات ظاہر کیے کہ آیا سعودی عرب میں ہونے والی ملاقات میں امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کا معاہدہ طے پائے گا۔ انہوں نے کہا، “ہم دیکھیں گے کہ آیا وہ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔”
ضرور پڑھیں: مفت میں نیٹو کا دفاع نہیں کریں گے: ٹرمپ کا اعلان
امریکی حکام نے کہا ہے کہ یوکرین کے ساتھ ممکنہ اقتصادی معاہدہ نہ صرف دونوں ممالک کو قریب لائے گا بلکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ وہ یوکرین کے خلاف مزید جارحیت کرنے سے پہلے دو بار سوچیں۔
یہ معاہدہ امریکی کمپنیوں کو یوکرین کے نایاب معدنیات تک رسائی فراہم کرے گا جو خاص طور پر ایئر اسپیس، برقی گاڑیوں اور طبی صنعت کے لیے اہم ہیں۔
یوکرین کے لیے اس معاہدے کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا اور مستقبل میں یوکرین کے لیے امریکا کی حمایت کو مزید یقینی بنائے گا۔
اب یہ دیکھنا ہو ہوگا کہ سعودی عرب میں ہونے والی ملاقاتیں دونوں فریقین کے لیے کس سمت میں پیش رفت کرتی ہیں۔ کیا یوکرین اور روس کے درمیان امن کی راہ ہموار ہو پائے گی؟