Follw Us on:

کیا پاکستان میں مردو خواتین ججز کا مساوی کردار ہے؟

زین اختر
زین اختر

حرفِ عام میں کہا جاتا ہے کہ ‘وکیلوں اور پولیس والوں کی نہ ہی دوستی اچھی ہوتی ہے اور نہ دشمنی،’  ویسے تو وکالت ایک معتبر پیشہ ہے، مگر پاکستان میں اس کے بارے میں کافی بدگمانی پائی جاتی ہے۔

یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وکالت مردوں کا پیشہ ہے جس میں عورتوں کا کوئی کام نہیں اور اس پیشے میں اچھے کم اور برے افراد سے زیادہ پالا پڑتا ہے۔

ماضی میں عدلیہ میں خواتین ججوں اور وکیلوں کا تعداد گنی چنی ہوئی ہوا کرتی تھی، مگر بدلتے وقت کے ساتھ نظریات میں تبدیلی آئی ہے اور عدلیہ میں خواتین کی شمولیت بڑھی ہے، لیکن پھر بھی مردوں کے مقابلے میں تعداد کافی کم ہے۔

عدالتی نظام میں جہاں خواتین ججز کی موجودگی انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے، وہیں  ترقی اور تقرری کے عمل میں انہیں مختلف چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔

پاکستان میں پہلی خاتون جج جسٹس (ر) خالدہ راشد خان ہیں، جو 1974 میں بطور سول جج مقرر ہوئیں۔ اس کے بعد خواتین ججز کی تعداد میں اضافہ ہوا، لیکن اعلیٰ عدلیہ میں ان کی شمولیت محدود ہی  رہی ہے۔

ذہن نشین رہے کہ سپریم کورٹ میں اب تک صرف دو خواتین ججز کو مقرر کیا گیا ہے، جب کہ ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں میں بھی خواتین ججز کا تناسب کم ہے۔

سپریم کورٹ میں اب تک صرف دو خواتین ججز کو مقرر کیا گیا ہے

خواتین ججز مختلف عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کر رہی ہیں اور انصاف کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ مختلف عدالتی فیصلوں میں خواتین ججز نے اہم مقدمات کا فیصلہ سنایا ہے، جن میں انسانی حقوق، خواتین و بچوں کے تحفظاور دیگر قانونی معاملات شامل ہیں۔

ملک میں خواتین ججز کی عدلیہ میں موجودگی سے متعلق عدالتی حلقوں میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور اس پر تحقیق اور تجزیہ ہر وقت ہو رہا ہےکہ ان کی شمولیت عدالتی نظام پر کیا اثر ڈال رہی ہے۔

پاکستان میں خواتین ججز کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں صنفی تعصب، ترقی کے مواقع کی محدود دستیابی اور عدالتی نظام میں موجود روایتی رکاوٹیں شامل ہیں۔

ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ رابعہ اعوان نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا  کہ انہوں نے عدلیہ میں کام کرتے ہوئے بعض مواقع پر صنفی تعصب کا سامنا رہا، خاص طور پر ابتدائی دور میں انھیں مرد ساتھی وکلا اور ججز  کم تجربہ کار اور کمزور تصور کرتے تھے، مگر ان کے فیصلوں اور کارکردگی نے وقت کے ساتھ ان تصورات کو بدل دیا۔

حالیہ برسوں میں خواتین ججز کی ترقی اور عدلیہ میں ان کی شمولیت کے حوالے سے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، جن میں مخصوص نشستوں پر تقرری اور عدلیہ میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے پالیسی سازی شامل ہے۔

رابعہ اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں خواتین کو درپیش سب سے بڑا چیلنج معاشرتی دباؤ اور پیشہ ورانہ برتری ثابت کرنا  ہے۔ بطور خاتون وکیل انہیں اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری، قانونی مہارت اور خود اعتمادی کا مظاہرہ کرنا پڑا۔ محنت اور مستقل مزاجی کی بدولت انہوں نے اپنی جگہ بنائی اور صنفی رکاوٹوں کو عبور کیا۔

عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف حکومتی اور عدالتی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں تقرری کے عمل میں اصلاحات، خواتین ججز کے لیے سازگار ماحول کی فراہمی اور عدالتی نظام میں صنفی تفریق کو کم کرنے کے لیے اقدامات شامل ہیں۔

عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف حکومتی اور عدالتی اقدامات کیے جا رہے ہیں

ایڈووکیٹ رابعہ اعوان کا  کہنا تھا کہ کہنے کو تو خواتین اور مردوں کے لیے مواقع یکساں دستیاب ہیں، لیکن عملی طور پر بعض معاملات میں مرد ججز کو زیادہ اہم مقدمات اور انتظامی عہدوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ تاہم، خواتین ججز کی کارکردگی نے اس رجحان کو کم کرنے میں مدد دی ہے اور اب کئی اعلیٰ عدالتی عہدوں پر خواتین فائز ہیں۔

یہ مسائل محض خواتین ججز کو ہی نہیں بلکہ خواتین وکلا کو بھی درپیش آتے ہیں، بلکہ اگر کہا جائے کہ خواتین وکلا، ججز کی نسبت زیادہ مسائل میں گھری ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ فاطمہ فخر رانا نے بتایا کہ وکالت ایک خوش آئندہ پیشہ ہے، جہاں  خواتین کو مردوں کے برابر مواقع میسر ہیں اور یہ ان کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اس پیشے میں کامیاب ہونا چاہتی ہیں۔

خواتین وکلا کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان میں  ترقی کے مواقع، عدالتی نظام میں شمولیت اور ورک لائف بیلنس شامل ہیں۔

اپنے کام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے فاطمہ فخر رانا کا کہنا تھا کہ ایک پیشہ ور عورت ہونے کے ناطے ہمیں کمرہ عدالت میں کبھی بھی صنفی امتیاز محسوس نہیں کرنا چاہیے، ہم ایک ہی صفحے پر ہیں، مرد یا عورت کے طور پر کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کبھی کبھی ایک عورت کے طور پر ہمیں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے،جیساکہ  جب ہم کمرہ عدالت میں جاتے ہیں تو اکثریت مرد وں کی ہوتی ہے جہاں ہم بعض اوقات تھوڑا سا عجیب سا محسوس کرتے ہیں اور پیشے کے آغاز میں ایسا سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں۔

عدلیہ میں خواتین کی شمولیت کو فروغ دینے کے حوالے سے رابعہ اعوان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں خواتین کے لیے مخصوص کوٹہ یا مراعات نہیں، بلکہ ایک شفاف اور مساوی نظام ہونا چاہیے جہاں میرٹ پر فیصلے کیے جائیں۔ اس کے علاوہ خواتین کے لیے قانونی تعلیم اور تربیت کے مزید مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں ۔

اس کے برعکس فاطمہ فخر رانا کا کہنا ہے کہ خواتین وکلاء اور ججوں کو کچھ مراعات دی جانی چاہئیں،  تاکہ وہ بحیثیت خاتون اپنی پیشہ ورانہ زندگی اور عملی زندگی میں توازن قائم کر سکیں۔

پاکستانی معاشرے میں جڑوں میں ایک ایسی بیماری نے زہر گھول رکھا ہے، جو کہ چاہ کر بھی نہیں نکالی جا رہی، اس بیماری کو ‘عورت کا کام گھر سنبھالنا ہے’ کہتے ہیں۔

یہ ایک نظریہ ہے کہ کام کرنے والی خواتین گھر بار نہیں سنبھال سکتیں خواہ وہ کسی بھی پیشے سے کیوں نہ ہوں اور پھر عدلیہ میں کام کرنے والی خواتین کو اور بھی برا سمجھا جاتا ہے۔

ورک لائف بیلنس کے حوالے سے فاطمہ رانا فخر نے کہا ہے کہ یہ مشکل ہے کیونکہ عورت کو اپنے خاندان اور اپنے کام کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات یہ بہت مشکل اور چیلنجنگ ہوتا ہے لیکن اگر عورت کو خاندانی تعاون حاصل ہو۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ وہ دونوں کو آسانی سے سنبھال سکتی ہے۔

ہمارے ہاں اکثر کہا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں ذہانت کی کمی ہوتی ہے اور وہ اچھا فیصلہ کرنے میں ناکام ہوتی ہیں۔

ایڈووکیٹ فاطمہ رانا فخر کے مطابق  یہ ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نہیں کہ خاتون جج کا فیصلہ ایک مرد کی طرح مستند نہیں ہوسکتا۔ اگر اس سوچ کو ختم کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ فیصلہ اہمیت پر انحصار کرتا ہے،مرد اور عورت پر نہیں۔

اگرچہ حکومت اور مختلف این جی اوز اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں کہ عدلیہ بھی خواتین کے لیےایک ضروری پیشہ ہے، مگر ابھی یہ ناکافی ہے اور اس کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

رابعہ اعوان نے بتایا کہ عدالتی نظام میں وقت کے ساتھ بہتری آئی ہے، لیکن مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔ خواتین ججز کو فیصلہ سازی میں زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے اور عدالتی ماحول میں صنفی حساسیت پیدا کرنے کے لیے پالیسی سازی ضروری ہے۔

کہنے کو تو بدلتے وقت کے ساتھ عدلیہ میں خواتین کے کردار میں اضافہ ہوا ہے، مگر یہ ملکی ترقی کے لیے ناکافی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں اور ملکی ترقی میں کلیدی کردار ادا کریں جیساکہ قائدِاعظم نے کہا تھا کہ:

‘کوئی بھی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندی کو نہیں چھو سکتی جب تک کہ ان کی خواتین ان کے شانہ بشانہ نہ ہوں۔’

 

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس