April 19, 2025 10:32 pm

English / Urdu

Follw Us on:

عمران خان کی ججز کے تبادلے پر سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
عمران خان کا ججز کی آئی ایچ سی میں تبادلے کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) میں ججز کے تبادلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی ہے۔

یہ درخواست آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا کہ یہ تبادلے جان بوجھ کر عدلیہ کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے اور سیاسی فائدے کے لیے کیے گئے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں یہ کہا گیا ہے کہ فروری میں تین صوبائی ہائی کورٹ کے ججز کو آئی ایچ سی میں منتقل کیا گیا جن میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو اور بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس محمد آصف شامل ہیں۔

اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان ججز کو آئی ایچ سی میں منتقل کرنے کے فیصلے کے پیچھے کوئی واضح شفافیت نہیں تھی اور نہ ہی اس کا کوئی عوامی مفاد تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پی ٹی آئی کہتی ہے خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ وزیردفاع

سب سے بڑا اور اہم سوال یہ اُٹھایا گیا کہ ان تبادلوں کا مقصد عدلیہ کو اس طرح سے گھیرا گیا ہے کہ ایسے ججز کو عدالتوں میں تعینات کیا جائے جو حکومت یا ایگزیکٹو کے حق میں فیصلہ دینے کو تیار ہوں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اس طریقے سے عدلیہ کی آزادانہ حیثیت اور اس کا ادارہ ماند پڑ جائے گا جو پاکستان کے جمہوری نظام کی بنیاد ہے۔

عمران خان نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ تبادلے اُن ججز کی سزا دینے کی ایک کوشش تھے جو ان پر دباؤ ڈالنے کے باوجود انصاف کے تقاضوں پر پورا اُترے اور فیصلے میرٹ پر کیے خاص طور پر وہ کیسز جو عمران خان کے خلاف چل رہے تھے۔

درخواست میں سابق آئی ایچ سی کے چیف جسٹس عامر فاروق کا بھی ذکر کیا گیا تھا جنہیں سپریم کورٹ میں ترقی دے کر نوازا گیا کیونکہ انہوں نے عمران خان کے خلاف مقدمات میں رکنے سے انکار کیا تھا۔

لازمی پڑھیں: باکمال لوگوں کی لاجواب سروس، قومی ایئر لائن طیارے کا لینڈنگ کے وقت ایک پہیہ غائب

عمران خان کی قانونی ٹیم کا کہنا تھا کہ یہ تبادلے ججز کی سینارٹی کو بھی متاثر کرتے ہیں کیونکہ جو ججز حال ہی میں آئی ایچ سی میں منتقل کیے گئے ہیں وہ اہم عہدوں پر فائز ہوئے جن میں ایڈہاک چیف جسٹس بھی شامل ہیں اور یہ سب کچھ بغیر حلف لیے کیا گیا۔

درخواست میں یہ سوالات اٹھائے گئے کہ کیا ان تبادلوں کے پیچھے کوئی شفافیت ہے؟ کیا یہ تبادلے آئین اور قانون کے مطابق ہوئے ہیں؟

اس درخواست میں کہا گیا کہ ججز کے تبادلے ایک واضح عوامی مفاد کے بغیر نہیں کیے جا سکتے اور اس صورت میں یہ عمل غیر قانونی اور آئین کے خلاف ہے۔

عمران خان نے یہ دعویٰ کیا کہ وزارت قانون کی جانب سے 1 فروری کو جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں کوئی جواز نہیں تھا اور یہ تبادلے آئین کی روشنی میں غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر ججز کے تبادلے کا عمل اسی طرح غیر شفاف اور بے بنیاد رہا تو اس سے عدلیہ کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور یہ عدلیہ کی غیر جانبداری کو متاثر کرے گا۔

دوسری جانب عمران خان نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ وہ اس نوٹیفیکیشن کو غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر درست قرار دے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت دے کہ ججز کے تبادلوں میں شفافیت اور عدلیہ کی خودمختاری کی حفاظت کی جائے۔

اس درخواست نے نہ صرف حکومت کے اقدامات پر سوالات اُٹھائے بلکہ پاکستان کے عدالتی نظام کی آزادی اور اس کی سالمیت کے حوالے سے سنگین خدشات بھی پیدا کیے ہیں۔

مزید پڑھیں: “بلوچستان کی ترقی کے بغیر ملکی ترقی کا خواب پورا نہیں ہو سکتا” وزیر اعظم کا اے پی سی بلانے کا اعلان

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس