کراچی کے مصروف ترین علاقوں میں فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کے لیے نہیں، بلکہ کاروباری سرگرمیوں اور تجاوزات کے لیے مختص ہو چکے ہیں۔
صدر کے علاقے میں جہاں کسی زمانے میں فٹ پاتھ صرف پیدل چلنے کے لیے ہوا کرتے تھے، آج وہاں کھانے پینے کے ٹھیلے، دکانوں کی توسیع اور دیگر غیر قانونی تجاوزات نے جگہ بنا لی ہے۔ شہریوں کے لیے سڑک پار کرنا تو دور کی بات، فٹ پاتھ پر بھی چلنا مشکل ہو چکا ہے۔
پریس کلب چورنگی کے قریب جہاں ایک طرف فٹ پاتھ کا تصور ہونا چاہیے، وہاں حقیقت میں حلیم، گریانے اور سموسے کے ٹھیلے لگے ہوئے ہیں۔ عوام کا کہنا ہے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں پیدل چلنے کے لیے بھی مناسب راستے دستیاب نہیں، اور جب پارکنگ کی جگہ بھی محدود ہو، تو صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
ریگل چوک جو کراچی کے مرکزی تجارتی مراکز میں شمار ہوتا ہے، وہاں بھی یہی کہانی دہرائی جا رہی ہے۔ دائیں جانب ٹھیلے، بائیں جانب پارک شدہ گاڑیاں اور درمیان میں خریداروں کا ہجوم، ایسے میں چار لوگ بھی ایک ساتھ فٹ پاتھ پر چلنے سے قاصر ہیں۔
شہری کہتے ہیں کہ اگر کراچی میں شاپنگ کے لیے آنا ہو تو وہ کار میں آنے سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ نہ صرف پارکنگ کا مسئلہ ہے، بلکہ فٹ پاتھ پر بھی آزادانہ چلنا ممکن نہیں۔
کراچی میں پارکنگ کے مسائل بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ حکومتی دعوے اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ چارجڈ پارکنگ آج بھی شہریوں سے فیس وصول کر رہی ہے۔ اگر آپ پارکنگ فیس نہیں دیتے، تو آپ کی موٹر سائیکل یا گاڑی لفٹر کی نذر ہو سکتی ہے اور پھر اسے چھڑانے کے لیے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
کراچی کے چند علاقوں میں اگرچہ فٹ پاتھ موجود ہیں، مگر ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ سندھی مسلم سوسائٹی کے علاقے میں صفائی کی صورتحال ناقص ہے اور عام دنوں میں شہری ان فٹ پاتھس کو استعمال کرنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔
یہ رپورٹ پیش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ انتظامیہ اس معاملے پر فوری توجہ دے، کیونکہ کراچی کے شہریوں کو جہاں پہلے ہی ٹرانسپورٹ کی سہولتیں میسر نہیں، وہیں پیدل چلنے کے لیے بھی مناسب راستے موجود نہیں۔
شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ حکام سے مطالبہ کریں کہ فٹ پاتھ کو اصل مقصد کے مطابق بحال کیا جائے تاکہ کراچی میں پیدل چلنے کا حق محفوظ کیا جا سکے۔