وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، پاور ڈویژن اعداد و شمار کے ساتھ حقائق بتائے، لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ حکومت نے نیٹ میٹرنگ کے بجائے نیٹ بلنگ متعارف کرا دی ہے، جس سے سولر صارفین کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
شمسی توانائی کے ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے نہ صرف عام صارفین بلکہ شمسی توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ کار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے چیئرمین وقاص ایچ موسیٰ کا کہنا ہے کہ ” حکومت کوئی بھی پالیسی بنانے سے قبل اس شعبے سے وابستہ افراد کو اعتماد میں لے۔ اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری ہو چکی ہے اور ہم حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کریں گے۔”
نیٹ میٹرنگ میں سولر صارفین کو ان کی اضافی بجلی کے بدلے اتنی ہی قیمت دی جاتی تھی، جتنی عام صارفین سے وصول کی جاتی تھی، یہ نظام صارفین کے لیے فائدہ مند تھا اور لوگوں کو سولر انرجی کی طرف مائل کرتا تھا۔
اب نیٹ بلنگ میں صارفین سے ان کی اضافی بجلی کم قیمت پر خریدی جاتی ہے، جب کہ اگر انہیں بجلی واپس خریدنی ہو تو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے، یہ نظام نیٹ بلنگ بجلی کمپنیوں کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن صارفین کے لیے نقصان دہ ہے۔
پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث لاکھوں صارفین نے سولر انرجی پر سرمایہ کاری کی، تاکہ اپنے بجلی کے بل کم کر سکیں۔ لیکن جیسے ہی نیٹ میٹرنگ سے بجلی کمپنیاں مالی نقصان میں جانے لگیں، حکومت نے نیٹ بلنگ متعارف کرا دی، جس میں بجلی کمپنیاں سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچتی ہیں۔
توانائی کے ماہر عبید اللہ خان کا کہنا ہے کہ” پاکستان کے پاور سیکٹر نے قابل تجدید توانائی کو اپنانے میں ڈرامائی تبدیلی دیکھائی۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک بھر میں شمسی تنصیبات صرف 740 میگاواٹ تک پہنچی ہیں۔”
یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اب بھی سولر انرجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، لیکن نیٹ بلنگ جیسے اقدامات سے اس کی ترقی رک سکتی ہے۔
بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث لاکھوں صارفین نے سولر پینلز پر سرمایہ کاری کی تھی، لیکن نیٹ بلنگ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
لاہور کے رہائشی محمد علی کا کہنا ہے کہ ہم نے 8 لاکھ روپے لگا کر سولر پینلز لگائے، تاکہ بجلی کا بل کم ہو اور اضافی بجلی بیچ کر فائدہ ہو، لیکن اب جب نیٹ بلنگ آ گئی ہے، تو ہمیں کم قیمت پر بجلی بیچنی پڑ رہی ہے، جب کہ خریدنی مہنگی پڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سولر صارفین گرڈ بجلی استعمال کرنے والوں پر اضافی 159 ارب کا بوجھ بن گئے
وزیراعظم شہباز شریف نے دعویٰ کیا تھا کہ سولر پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیٹ بلنگ متعارف کرا دی گئی ہے، نیٹ میٹرنگ کے ریٹس کم کر دیے گئے ہیں، صارفین کو کم قیمت پر بجلی بیچنی پڑ رہی ہے اور مہنگی خریدنی پڑ رہی ہے۔
حقیقت میں سولر صارفین کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے اور اس پالیسی کا اصل فائدہ بجلی کمپنیوں کو ہو رہا ہے، جو سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچ رہی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے فائدہ صرف بجلی تقسیم کار کمپنیوں کو ہوگا، جو سستی بجلی خرید کر مہنگی بیچیں گی۔ سولر صارفین کو جو امید تھی کہ وہ سستی اور ماحول دوست توانائی سے فائدہ اٹھائیں گے، وہ دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔
یہ واضح ہو چکا ہے کہ حکومت کی نئی پالیسی سولر صارفین کے حق میں نہیں ہے۔ نیٹ میٹرنگ کے تحت جو لوگ سرمایہ کاری کر چکے تھے، وہ اب نیٹ بلنگ کے باعث نقصان میں جا رہے ہیں، اگر حکومت واقعی گرین انرجی کو فروغ دینا چاہتی ہے، تو پھر ایسی پالیسیاں کیوں بنا رہی ہے جو سولر صارفین کی حوصلہ شکنی کریں۔