Follw Us on:

آئس اسٹوپا: گلگت بلتستان کی سرد وادیوں میں پانی کی کمی کا دلچسپ علاج

زین اختر
زین اختر

گلگت بلتستان کی سرد وادیوں میں پانی کی کمی سے نمٹنے کے لیے مقامی کسانوں نے ایک دلچسپ طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ سردیوں میں برف سے بنے مصنوعی گلیشیئر تیار کر رہے ہیں، جنہیں آئس اسٹوپا کہا جاتا ہے۔

یہ برف کے بڑے ڈھانچے ہوتے ہیں، جو سردیوں میں پانی کو فضا میں چھڑک کر جمائے جاتے ہیں۔ جب موسم بہار آتا ہے اور قدرتی برفانی پگھلنا شروع نہیں ہوتا، تب یہ آئس اسٹوپا آہستہ آہستہ پگھلتے ہیں اور فصلوں کے لیے ضروری پانی فراہم کرتے ہیں۔

یہ خیال مقامی سطح پر پیدا نہیں ہوا بلکہ انڈیا کے زیرِ قبضہ لداخ سے آیا، جہاں ماہرِ ماحولیات سونم وانگچک نے تقریباً ایک دہائی قبل اس تکنیک کو متعارف کروایا۔

حسین آباد کے ایک کسان غلام حیدر ہاشمی نے بتایا کہ انہوں نے یوٹیوب پر اس کے بارے میں دیکھا اور خود سے پہلا مصنوعی گلیشیئر بنایا۔ یونیورسٹی آف بلتستان کے پروفیسر ذاکر حسین ذاکر کے مطابق یہ طریقہ تب کام کرتا ہے جب پانی کو سرد ہوا میں چھڑکا جائے تاکہ وہ فضا میں ہی جم جائے اور برف کی شکل اختیار کرے۔

محمد رضا نامی کسان نے بتایا کہ اس موسم سرما میں ان کے گاؤں میں آٹھ آئس اسٹوپا بنائے گئے ہیں، جن میں تقریباً دو کروڑ لیٹر پانی محفوظ کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے فصلیں بونے کے لیے جون تک انتظار کرنا پڑتا تھا، اب وہ اس سے کہیں پہلے کھیتی شروع کر سکتے ہیں۔ قریبی گاؤں پاری سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کسان بشیر احمد کا کہنا ہے کہ پانی کی بہتر دستیابی سے اب وہ سال میں تین مرتبہ فصلیں اگا سکتے ہیں، جن میں گندم، جو اور آلو شامل ہیں، جبکہ پہلے صرف ایک فصل ممکن تھی۔

یہ طریقہ مہنگے انفراسٹرکچر جیسے پانی کے ذخائر یا ٹینکوں کی ضرورت کے بغیر کام کرتا ہے اور مقامی جغرافیہ و موسم کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔

2018 میں پہلے آئس اسٹوپا کی کامیابی کے بعد گلگت بلتستان کے بیس سے زائد دیہاتوں میں یہ تکنیک اپنائی جا چکی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور حکومتِ پاکستان کے مشترکہ موسمیاتی پروگرام کے تحت اب سولہ ہزار سے زائد افراد اس نظام سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

پاکستان کے شمالی علاقے موسمیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ یہاں درجہ حرارت عالمی اوسط سے دو گنا تیزی سے بڑھ رہا ہے اور برف باری میں واضح کمی آ چکی ہے۔

ماہر برفانیات شیر محمد کے مطابق پہلے اکتوبر سے اپریل تک شدید برف باری ہوتی تھی، لیکن اب سردیاں خشک ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں مقامی آبادی نے محدود وسائل کے باوجود ایک سادہ، سستا اور مؤثر حل اختیار کیا ہے۔

حسین آباد کے ایک نوجوان یاسر پاروی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر سب پر یکساں ہے، یہاں نہ کوئی امیر ہے نہ غریب، ہم سب اس کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے ایک تجربہ کیا، اور خوش قسمتی سے یہ کامیاب رہا۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس