ترکی اور پاکستان نے سمندر کے کنارے تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کے لیے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کی ایک بڑی پیش رفت ہے۔
اس معاہدے پر اسلام آباد میں منعقدہ 2025 پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم میں دستخط ہوئے، جس میں 40 آف شور بلاکس پر مشترکہ بولی شامل ہے۔ تلاش کا دائرہ مکران اور سندھ طاس تک پھیلا ہوا ہے، جہاں ایک حالیہ جیولوجیکل سروے میں وسیع ذخائر کی نشاندہی ہوئی ہے۔
ترکی کی سرکاری کمپنی ٹی پی اے او، پاکستان کی تین بڑی توانائی کمپنیوں ماری انرجی، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل کے ساتھ مل کر فروری سے شروع ہونے والے بولی کے عمل میں حصہ لے گی۔
تین سالہ تحقیق کے مطابق پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا آف شور تیل و گیس ذخائر رکھنے والا ملک ہو سکتا ہے۔ اگر ان ذخائر کی تصدیق ہو جائے تو یہ پاکستان کے لیے توانائی کے میدان میں ایک گیم چینجر ثابت ہو گا اور درآمدی ایندھن پر انحصار میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔
ماضی میں پاکستان میں توانائی کے شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری محدود رہی ہے۔ 2023 میں شیل کمپنی نے اپنے آپریشنز سعودی آرامکو کو بیچ کر ملک سے نکلنے کا فیصلہ کیا، جبکہ کئی آف شور بلاکس پر پہلے کی نیلامیوں میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی گئی۔ لیکن حکام کو امید ہے کہ ترکی کے ساتھ یہ نئی شراکت داری سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرے گی۔
وزیر توانائی محمد علی کے مطابق پاکستان کے پاس 235 ٹریلین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر موجود ہیں، جن میں سے 10 فیصد کو کھولنے کے لیے 25 سے 30 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اس سرمایہ کاری سے ملک کو آئندہ دس سالوں میں توانائی کے شدید بحران سے نکالا جا سکتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سمندری پانیوں میں کوبالٹ، نکل، اور نایاب زمینی عناصر جیسے قیمتی معدنیات بھی موجود ہیں۔
حکام نیلی معیشت کو فروغ دینے کے لیے سمندری وسائل، ماحولیاتی سیاحت، اور بائیو ٹیکنالوجی پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے پاس فی الحال گہرے سمندر میں کان کنی کی ٹیکنالوجی کی کمی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے قانون سازی میں بہتری، شفاف طرز حکمرانی، اور سرمایہ کاروں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہو گی۔