پنجاب حکومت کی جانب سے گندم کے کاشتکاروں کے لیے 15 ارب روپے کے مالیاتی پیکج کے اعلان کے باوجود، کسان تنظیموں نے اس اقدام کو مسترد کر دیا ہے اور اسے بااثر طبقے کے فائدے کے لیے قرار دیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس پیکج کا مقصد گندم کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے اثرات سے کسانوں کو بچانا ہے، جبکہ کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ ریلیف نہیں بلکہ استحصال ہے۔
پنجاب حکومت کے مطابق، 550,000 گندم کے کاشتکاروں کو براہ راست مالی امداد دی جائے گی، جو کسان کارڈ کے ذریعے فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو رواں سال آبپاشی اور مقررہ ٹیکس کی ادائیگی سے استثنیٰ بھی دیا گیا ہے۔ حکومت نے چار ماہ کے لیے مفت اسٹوریج اور الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید (ای وی آر) کی سہولت بھی متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے تاکہ کاشتکار موسمیاتی اثرات اور مارکیٹ کے دباؤ سے محفوظ رہ سکیں۔
ای وی آر سسٹم کے تحت، کسان اپنی گندم ذخیرہ کر کے اس کے عوض بینکوں سے اس کی قیمت کا 70 فیصد تک قرض حاصل کر سکیں گے۔ پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ اس نظام سے کسانوں کو فوری مالی مدد ملے گی اور وہ گندم کی بہتر قیمت کا انتظار کر سکیں گے۔
مزید اقدامات میں فلور ملز اور گرین لائسنس ہولڈرز کو بینک آف پنجاب سے 100 ارب روپے تک کے قرضے دیے جانے کی سہولت شامل ہے، جن پر مارک اپ حکومت ادا کرے گی۔ ان اداروں کو گندم کی لازمی خریداری کی پابندی کا سامنا ہوگا اور کل گندم اسٹوریج کی گنجائش کا 25 فیصد تک ذخیرہ کرنا بھی لازم ہوگا۔

حکومت نے وفاقی سطح پر گندم اور گندم کی مصنوعات کی برآمدات کی اجازت کے لیے بھی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ ساتھ ہی، گندم کی نقل و حمل پر صوبائی و ضلعی سطح پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں تاکہ گندم کی مارکیٹنگ کا عمل مزید موثر ہو سکے۔
وزیراعلیٰ مریم نواز نے کہا کہ حکومت کسانوں کے مفادات کا تحفظ یقینی بنائے گی اور انہیں نقصان نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس نگران حکومت نے گندم کی درآمدات کے باعث کسانوں سے مقامی خریداری نہیں کی، جس سے گندم کی قیمت گر گئی تھی۔
تاہم، کسان رہنماؤں نے اس پیکج کو سرمایہ داروں کے لیے قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق نے کہا کہ کسانوں کو 4000 روپے فی من گندم کا ریٹ درکار ہے، جو حکومت نے فراہم نہیں کیا۔ ان کے بقول، یہ پیکج جاگیرداروں اور بااثر طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔
کسان اتحاد کے مرکزی چیئرمین خالد حسین باٹھ نے بھی پیکج کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ای وی آر سسٹم امیر طبقے کے لیے بنایا گیا ہے، جبکہ دیہات میں کسانوں کے پاس ذخیرہ کرنے کی سہولت ہی موجود نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پیکج دراصل فلور ملز اور لائسنس ہولڈرز کو نوازنے کا طریقہ ہے، جس میں اصل کسان کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
انہوں نے حکومت پر الزام لگایا کہ وہ پاسکو اور محکمہ خوراک جیسے اداروں کو کمزور کر رہی ہے، جو کہ کسانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ خالد باٹھ کا کہنا تھا کہ جب تک گندم کا سرکاری ریٹ مقرر نہیں کیا جاتا، کسان مارکیٹ کے رحم و کرم پر رہیں گے۔
دونوں رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پیکج پر نظرثانی کرے اور کسانوں کو حقیقی معنوں میں فائدہ پہنچانے والے اقدامات اٹھائے، بصورت دیگر کسانوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔