130 سے زائد بین الاقوامی طلبہ، جنہوں نے امریکا میں اپنی تعلیم اور مستقبل کو بچانے کے لیے وفاقی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
ان طلبہ کا الزام ہے کہ امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) نے ان کے اسٹوڈنٹ ویزے اچانک اور غیر قانونی طور پر منسوخ کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف اپنی تعلیم سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ گرفتاری، نظربندی اور ملک بدری کے خطرے سے بھی دوچار ہو گئے۔
یہ مقدمہ سب سے پہلے 11 اپریل کو ریاست جارجیا میں 17 طلبہ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر سے مزید 116 طلبہ اس قانونی جنگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
یہ کیس اب ایک تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے، ان طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کے ویزے SEVIS (اسٹوڈنٹ اینڈ ایکسچینج وزیٹر انفارمیشن سسٹم) ڈیٹا بیس سے ان کی تفصیلات بغیر کسی معقول وجہ کے ہٹا کر منسوخ کیے گئے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ ان ویزا منسوخیوں کے پیچھے کوئی واضح وجہ نہیں دی گئی۔ بعض طلبہ نے محض ٹریفک چالان یا پرانے اور بند مقدمات کو ممکنہ وجہ قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کے وزیر دفاع سرکاری دورے پر ایران پہنچ گئے
ایک چینی طالبعلم، جو جارجیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں انجینئرنگ کا ڈاکٹریٹ کر رہا ہے اس کو یونیورسٹی نے بتایا کہ اس کا ویزا کسی “کریمنل ریکارڈ چیک” کے بعد منسوخ کر دیا گیا مگر اس ریکارڈ میں کسی جرم کی وضاحت نہیں دی گئی۔
وہ مانتا ہے کہ شاید یہ کسی پرانے ٹریفک کیس کی بنیاد پر ہوا ہو حالانکہ اس کا کوئی مجرمانہ ماضی نہیں۔
اسی طرح، نیویارک انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں زیر تعلیم ایک انڈین طالبعلم نے بتایا کہ اس پر شاپ لفٹنگ کا الزام لگایا گیا تھا مگر عدالت نے اسے باعزت بری کر دیا۔
اس کے باوجود اس کا ویزا منسوخ کر دیا گیا اور اب وہ نہ صرف تعلیم سے محروم ہے بلکہ امریکا میں قیام کا قانونی حق بھی کھو بیٹھا ہے۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ SEVIS سے ان طلبہ کی تفصیلات کا اخراج انہیں مستقبل میں دوبارہ امریکا میں داخلے کے حق سے بھی محروم کر سکتا ہے۔
درخواست گزاروں نے اٹارنی جنرل پام بونڈی، ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم اور ICE کے عبوری ڈائریکٹر ٹوڈ لیونز کو فریق بنایا ہے اور ویزوں کی بحالی کی درخواست کی ہے۔
یہ مقدمہ نہ صرف طلبہ کے حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے بلکہ یہ اس وسیع تر امیگریشن پالیسی کا بھی حصہ ہے جس نے ٹرمپ دور میں غیر ملکیوں، بالخصوص طلبہ، کو نشانے پر رکھا۔ مزید پڑھیں: اسرائیل کیسے فلسطینیوں کا ورثہ تباہ کر رہا ہے؟