ہم سب انڈیا میں موجود محبت کی علامت سمجھے جانے والے تاج محل کو تو جانتے ہیں۔ لیکن کیا ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان میں بھی کوئی ایسا محل ہے، جو کسی عاشق کا دل چیرتا ہوا نوحہ ہو؟ تو آئیے آپ کو لے چلتے ہیں ایک ایسی کہانی کی جانب جس کی بنیاد صرف اینٹوں سے نہیں، بلکہ یادوں سے رکھی گئی تھی۔
نور محل، بہاولپور کی دھرتی پر کھڑا ایک خاموش گواہِ محبت ہے۔ یہ ایک ایسا گواہ ہے جو صدیوں سے سوال کر رہا ہے کہ میں جس کے لیے بنایا گیا، وہ یہاں کیوں نہ رکا؟
1872 میں ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان چہارم نے اطالوی طرز پر ایک محل تعمیر کروایا اور اس کا نام نور محل رکھا گیا۔ شاید اس “نور” کے نام پر جس کی روشنی نواب کی زندگی کا مرکز تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس محل کو ایک ملکہ کے لیے بسایا گیا تھا۔ ہر دیوار، ہر کمرہ، ہر فانوس اسی ملکہ کی شان اور آرام دہ زندگی کے لیے بنایا گیا۔
لیکن محل کی بالکونی سے جب ملکہ عالیہ نے قریب ہی واقع قبرستان کو دیکھا تو اس کی روح پر ایک ایسی اداسی چھا گئی، جس کے بعد اس نے یہاں زندگی بسر کرنے سے انکار کر دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا کہ کیا محبت کی یہ عظیم نشانی محض ایک رات کی کہانی بن کر رہ گئی؟
محل کی تعمیر ریاستی انجینئر مسٹر ہینن کی نگرانی میں ہوئی، جس میں اطالوی اور اسلامی فنِ تعمیر کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ 44 ہزار 600 مربع فٹ پر پھیلے اس محل کی 3 منزلیں ہیں۔ اس محل میں بلند ہال، چوگوشیہ برج اور شرقی غربی کمرے گویا ہر گوشہ، شاہانہ جمال کا آئینہ ہے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ جب ملکہ چلی گئی تو کیا محل بھی سنسان ہو گیا؟ تو اس کا جواب ہے نہیں۔ ملکہ کے جانے کے بعد یہ محل نوابوں کے سرکاری مہمان خانے میں تبدیل ہو گیا۔
اس محل میں ہی خواجہ ناظم الدین نے قیام کیا، یہاں نواب بہاول خان پنجم کی دستاربندی ہوئی، ادھر ہی برطانوی وائسرائے کا دربار بھی سجا۔
محل کے اندر بڑے ہال میں چاندی کی کرسی، قد آدم آئینے بھی نصب کیے گئے جن میں انسان کبھی موٹا تو کبھی دبلا نظر آتا ہے۔ ایسے میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا یہ سب کھیل تھا یا وقت کا عکس؟ کیا واقعی ہر عظمت کے پیچھے کوئی محرومی چھپی ہوتی ہے؟
1906 میں اس محل کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی، جس پر اس وقت 30 ہزار روپے خرچ کیے گئے۔ اس محل کی بنیاد میں ریاست کے سکے رکھے گئے۔ کیا یہ سکہ، صرف کرنسی تھی؟ یا پھر وقت کا گواہ؟
آج نور محل کی دیواروں پر ریاستی اسلحہ، عباسی نوابوں کی تصاویر اور قائداعظم محمد علی جناح کے زیرِ استعمال اشیاء سمیت یادگار لمحات محفوظ ہیں۔
بعد ازاں 1997 میں یہ محل پاکستان آرمی کے حوالے کر دیا گیا۔ اب یہ محل سیاحوں کے لیے روزانہ صبح سے شام تک کھلا رہتا ہے۔
لیکن جب سیاح اس محل کی دیواروں کو چھوتے ہیں تو کیا وہ اس ادھوری محبت کو محسوس کرتے ہیں جو کبھی ان ستونوں کے نیچے دبی رہ گئی تھی؟
کیا آپ نے کبھی کسی ایسی جگہ قدم رکھا ہے جہاں خاموشی بھی سوال کرتی ہو؟ کیا یہ محل ایک عاشق کی ہار ہے یا پھر اس کی لازوال محبت کے اظہار کا ایک ذریعہ؟
تو سوچیے! کیونکہ کچھ کہانیاں صرف سنائی نہیں جاتیں محسوس بھی کی جاتی ہیں۔