کراچی میں افغان شہریوں کے خلاف جاری کارروائیوں پر کئی حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق، دولت اور اثر و رسوخ رکھنے والے افغان باشندوں کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، جبکہ کم آمدنی والے اور مزدوری پر انحصار کرنے والے افراد کو بغیر کسی امتیاز کے گرفتار کر کے ملک بدر کیا جا رہا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں سے حراست میں لیے گئے افغان شہریوں کے اہلخانہ نے بتایا کہ ان کے پیارے غریب لوگ ہیں جو محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کا رویہ ایک خاص طبقے کے خلاف زیادہ سخت ہے، اور بعض اوقات محض ملک بدری کے اہداف پورے کرنے کے لیے کمزور افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
35 سال سے کراچی میں مقیم افغان شہری محمد طاہر نے کہا کہ ان کے بچے یہیں پیدا ہوئے، یہیں تعلیم حاصل کی اور شادی بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جن افغان خاندانوں کی نئی نسل پاکستان میں پلی بڑھی ہو، انہیں ایک ایسے ملک واپس بھیجنا غیر انسانی ہے جہاں وہ کبھی گئے ہی نہ ہوں۔ بہت سے افغان خاندان اب پاکستانی خاندانوں سے رشتہ داری میں جُڑ چکے ہیں، جس سے وطن واپسی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔
انسانی حقوق کی وکیل مونیزا کاکڑ نے اس بات کی تصدیق کی کہ حراست میں لیے گئے افغانوں میں اکثریت غریب مزدوروں کی ہے، جن میں زیادہ تر سبزی منڈی کے محنت کش شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کی ہدایت صرف افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والوں پر لاگو ہوتی ہے، لیکن کراچی میں دیگر قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بھی حراست میں لے کر زبردستی افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق، 31 مارچ کی ڈیڈ لائن کے بعد ہر ہفتے تقریباً 300 افغان باشندوں کو کراچی سے ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ سندھ میں اندازاً 16,000 افغان سٹیزن کارڈ ہولڈر مقیم ہیں، جن میں اکثریت کراچی میں رہتی ہے، مگر خیال کیا جاتا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
اس صورتحال پر افغان مہاجرین کے رہنما مولانا رحیم اللہ نے بھی پریس بریفنگ میں روشنی ڈالی، اور اس بات کا اعتراف کیا کہ کئی افغان خاندان بغیر سرکاری دستاویزات کے یا جعلی شناخت پر پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، جن میں سے بعض نے یہاں کاروبار اور جائیدادیں بھی قائم کر رکھی ہیں۔
یہ معاملہ نہ صرف انسانی ہمدردی بلکہ قانونی پیچیدگیوں کا بھی حامل ہے، اور اس کے حل کے لیے شفاف اور غیر جانبدار پالیسیوں کی ضرورت ہے تاکہ شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔