April 19, 2025 10:44 pm

English / Urdu

Follw Us on:

جوہری پروگرام کا مستقبل: ایران اور امریکا مسقط کے بعد آج روم میں ملاقات کریں گے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا ایک نیا دور آج ہفتہ کو شروع ہو رہا ہے، جو کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ ہفتے مسقط میں ہونے والی بات چیت کے بعد ایک اہم پیش رفت ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی روم پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ امریکی سفیر سٹیو وٹ کوف کے ساتھ عمان کی ثالثی میں ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت میں شریک ہوں گے۔

یہ مذاکرات 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ ختم کرنے کے بعد سے اب تک کی سب سے بلند سطح کی سفارتی کوشش تصور کی جا رہی ہے۔ دونوں فریقوں نے گزشتہ بات چیت کو مثبت قرار دیا تھا، لیکن اب بھی دونوں کے درمیان گہرا عدم اعتماد موجود ہے۔

امریکا اور اس کے اتحادی طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کی کوششوں کا الزام لگاتے رہے ہیں، جس کی ایران بار بار تردید کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران اس وقت 60 فیصد تک یورینیم افزودہ کر رہا ہے، جو کہ 2015 کے معاہدے میں طے شدہ 3.67 فیصد سے بہت زیادہ ہے، لیکن ہتھیاروں کے درجے کے لیے درکار 90 فیصد کی سطح سے ابھی نیچے ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ جانتی ہے کہ یہ عمل آسان نہیں ہوگا، لیکن وہ ہر قدم ہوشیاری سے اٹھا رہے ہیں۔ عراقچی کا کہنا تھا کہ ایران امریکی رویے پر مشکوک ہے لیکن پھر بھی مذاکرات میں حصہ لے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے ایران کے لیے فوجی کارروائی کی دھمکی کے باوجود، انہوں نے حالیہ بیان میں کہا کہ وہ فوجی آپشن کے استعمال کے لیے جلدی میں نہیں ہیں۔

مسقط میں امریکا اور ایران پہلے اس معاملے پر ملاقات کر چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کے سربراہ رافیل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب ہے اور اب مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاہدہ حاصل کرنے کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے یورپی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ایران کی خلاف ورزیوں پر “اسنیپ بیک” میکانزم کو فعال کریں، جس سے اقوام متحدہ کی پابندیاں خودبخود بحال ہو جائیں گی۔ ایران نے اس پر تنبیہ کی ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہو سکتا ہے۔

ایران مذاکرات میں صرف پابندیوں کے خاتمے اور جوہری پروگرام پر گفتگو پر تیار ہے۔ عراقچی کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے غیر حقیقت پسندانہ مطالبات نہ کیے تو معاہدہ ممکن ہے۔ ایران نے یورینیم افزودگی کے حق کو ناقابل گفت و شنید قرار دیا ہے، جبکہ امریکی وفد اسے مکمل طور پر روکنے پر زور دے رہا ہے۔

ایرانی فوجی حکام اور انقلابی گارڈز نے واضح کیا ہے کہ ایران کی میزائل صلاحیتیں اور علاقائی اثر و رسوخ مذاکرات سے باہر ہیں۔ ایران کے رہبر اعلیٰ خامنہ ای نے عوام سے کہا ہے کہ وہ ان مذاکرات سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ نہ کریں کیونکہ ان کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

ادھر اسرائیل نے بھی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے، اور کہا ہے کہ اس کے پاس روک تھام کے لیے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ مذاکرات جاری ہیں، مگر فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا ہنوز قائم نہیں ہو سکی۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس