Follw Us on:

‘نجکاری نہیں چلے گی‘ گرینڈ ہیلتھ الائنس کا احتجاج شدت اختیار کر گیا

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد
پنجاب حکومت نے پہلے بنیادی مراکز صحت پرائیوٹائز کر دیے۔ (فوٹو: گوگل)

لاہور کی مرکزی شاہراہ مال روڈ پر چیئرنگ کراس کے مقام پر لگے خیمے، ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے مرد و خواتین، سڑکوں پر لیٹے طبی عملے کے ارکان اور ان کے چہروں پر چھائی تھکن۔ یہ مناظر پنجاب کے سرکاری اسپتالوں سے تعلق رکھنے والے ان ہزاروں ملازمین کے احتجاج کی عکاسی کرتے ہیں جو “نجکاری کے خلاف جدوجہد” کے نعرے کے ساتھ گزشتہ 13روز سے سراپا احتجاج ہیں۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر ڈاکٹر سلمان حسیب نے پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے پہلے بنیادی مراکز صحت پرائیوٹائز کر دیے، اب بڑے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ جس سے محکمہ صحت کے دو لاکھ سے زائد ملازمین کے روزگار اور شہریوں کو سستی صحت کی سہولیات کو شدید خطرہ ہے۔

گرینڈ ہیلتھ الائنس کے مطابق حکومت پنجاب “ہیلتھ فیسیلیٹیز مینجمنٹ کمپنی” کے ذریعے سرکاری اسپتالوں کی خدمات نجی شعبے کو منتقل کر رہی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسیاں عوام دشمن ہیں اور صحت کے شعبے کو منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرنے کی کوشش ہیں۔

حکومت پنجاب “ہیلتھ فیسیلیٹیز مینجمنٹ کمپنی” کے ذریعے سرکاری اسپتالوں کی خدمات نجی شعبے کو منتقل کر رہی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

یہ احتجاج مارچ 2025 کو اس وقت شروع ہوا جب مختلف طبّی شعبوں سے وابستہ ملازمین نے ابتدائی طور پر ہڑتال کا اعلان کیا۔ اپریل کو گرینڈ ہیلتھ الائنس نے لاہور میں دھرنے کا آغاز کیا۔ 18 اپریل کو مظاہرین نے وزیراعلیٰ ہاؤس کی جانب مارچ کرنے کی کوشش کی، جس پر پولیس نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران شدید جھڑپیں ہوئیں، لاٹھی چارج، واٹر کینن اور گرفتاریوں کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

کچھ مظاہرین گرمی کی شدت کے باعث بے ہوش ہوگئے، جنہیں موقع پر ہی طبی امداد دی گئی، مظاہرے میں شامل گرینڈ ہیلتھ الائنس کے صدر ڈاکٹر شعیب نیازی کی حالت بھی خراب ہوگئی۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے صدر شعیب نیازی اور سلمان حسیب کو پولیس ساتھ لے کر چلی گئی اور مؤقف اختیار کیا کہ ہم ڈاکٹرز کے نمائندوں کو مذاکرات کے لیے لے کر جارہے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر شعیب نیازی نے کہاکہ پولیس کی جانب سے مذاکرات کا کہا جارہا ہے، اگر ہمیں گرفتار کر لیا جاتا ہے تو مظاہرین دھرنا جاری رکھیں۔

لاہور کے چلڈرن اسپتال اور جنرل ہسپتالوں کی او پی ڈیز نے کام کرنا بند کر دیا ہے، جب کہ شہر کے دیگر سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز جاری ہیں۔ لاہور میں بنیادی مراکز صحت کی نجکاری کے خلاف گرینڈ ہیلتھ الائنس کا پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا تیرہ روز سے جاری ہے۔

پولیس تشدد کے خلاف ینگ ڈاکٹرز نے آج پنجاب بھر کے سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی بند کردی ہے۔ لاہور کے جنرل، میو، گنگا رام، سروسز اور جناح اسپتال میں ینگ ڈاکٹرز او پی ڈی بند کراتے ہیں، جسے انتظامیہ دوبارہ بحال کردیتی ہے۔

دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کا کہنا ہے نجکاری سے بے روزگار ہوجائیں گے، نجکاری کا فیصلہ واپس لیاجائے، جب تک حکومت مذاکرت کرنےاورمطالبات منظورنہیں کرلیتی دھرنا جاری رہے گا۔

اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی سلمٰی بٹ نے کہا کہ کسی کے روزگار پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔ آٹ سور سنگ کی مبینہ طور پر اس لیے تکلیف ہے کہ اب روزانہ حاضری چیک ہو گی اور عملے کو روزانہ آنا پڑے گا۔

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں اراکین اسمبلی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کی توجہ اس جانب دلائی اور کہا کہ حکومت کو اس آٹ سورسنگ میں کم از کم ملازمین کی ریٹائر منٹ سے پہلے تک ملازمت برقرار رکھی جائے تو اسپیکر کے استفسار پر صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب حکومت کے پی ایچ ایف ایم سی کی نگرانی میں بی ایچ یو اور آر ایچ سی چل رہے تھے، جس کی جون میں نگرانی ختم ہو جائے گی۔

حکومت نوے فیصد ملازمین کومتبادل روزگار فراھم کرے گی، جس میں ڈاکٹرز، ایل ایچ وی، نرس، آیا اور درجہ چہارم کے ملازمین شامل ہیں۔

یہ احتجاج صرف ڈاکٹروں تک محدود نہیں بلکہ اس میں آل پنجاب پیرا میڈیکل اسٹاف فیڈریشن، لیڈی ہیلتھ ورکرز ایسوسی ایشن، ینگ نرسز ایسوسی ایشن، کلاس فور یونین اور مختلف ٹیکنیکل اینڈ نان-ٹیکنیکل ملازمین کی نمائندہ تنظیمیں شامل ہیں۔ یہ اشتراک اس احتجاج کو ایک جامع صوبائی تحریک کی صورت دے رہا ہے۔

صحت جیسے بنیادی انسانی حق پر نجکاری کی چھاپ نے نہ صرف طبّی عملے کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا ہے، بلکہ وہ غریب اور محروم طبقہ بھی شدید متاثر ہوا ہے، جو سرکاری اسپتالوں کو اپنی واحد امید سمجھتا ہے۔ جب صحت جیسا حساس شعبہ پالیسی تضادات، عدم اعتماد اور احتجاج کی زد میں آ جائے تو اثر صرف اداروں پر نہیں پڑتا بلکہ ہر بیمار اور اس کے گھرانے تک پہنچتا ہے۔

لہٰذا اب وقت ہے کہ حکومت اور طبّی عملہ جذبات سے ہٹ کر ہوش سے کام لیں، ایک دوسرے کا مؤقف سنیں اور ایسے پائیدار حل کی طرف بڑھیں جو نہ صرف ملازمین کے خدشات کا ازالہ کرے بلکہ عام آدمی کو بروقت اور باوقار علاج کی سہولت بھی یقینی بنائے۔ کیونکہ اگر مسئلہ حل نہ ہوا تو نقصان صرف اداروں کا نہیں، پورے معاشرے کا ہو گا۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس