Follw Us on:

2030 تک ترقی کا ہدف، “اُڑان پاکستان” کا ویژن کیا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
یہ سربراہی اجلاس محض مواقع پر بات کرنے کا فورم نہیں بلکہ ایک ایسے نئے باب کا آغاز ہے۔ (فوٹو: گوگل)

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات پروفیسر احسن اقبال نے اسلام آباد میں منعقدہ “پاکستان بحرین سرمایہ کاری سربراہی اجلاس و ایکسپو 2025” سے کلیدی خطاب کیا۔ اس اہم اجلاس میں مملکتِ بحرین کے اعلیٰ سطحی وفد، بین الاقوامی و ملکی سرمایہ کاروں، سفارت کاروں، کاروباری شخصیات اور تجارتی و صنعتی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کیا۔

اپنے خطاب میں احسن اقبال نے بحرینی وفد کو خوش آمدید کہا اور پاکستان و بحرین کے درمیان اقتصادی تعاون کو مزید مستحکم بنانے کی مشترکہ کوششوں کو سراہا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ سربراہی اجلاس محض مواقع پر بات کرنے کا فورم نہیں بلکہ ایک ایسے نئے باب کا آغاز ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور اسٹریٹجک شراکت داری کے نئے راستے کھولے گا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان اور بحرین تاریخی، ثقافتی اور اسٹریٹجک رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں اور اب یہ تعلق ترقی کی نئی جہتوں میں ڈھل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ترقی کا انتظار کرنے کے بجائے خود اس کی بنیاد رکھیں اور آج کا دن اسی عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی فورسز کی اسکول پر بمباری: بچوں و خواتین سمیت 10 معصوم فلسطینی شہید

احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان آج ایک واضح اقتصادی وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے جس میں انفراسٹرکچر کی ترقی، علاقائی روابط کا فروغ، حکومتی خدمات کی ڈیجیٹلائزیشن اور نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے جیسے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے حکومت کے فلیگ شپ منصوبے “اُڑان پاکستان” کا تفصیلی تعارف پیش کیا، جو 2030 تک پائیدار ترقی کے حصول کا روڈمیپ ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے 2030 تک برآمدات کو 100 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے حکومت ویلیو ایڈڈ صنعتی پیداوار کو فروغ دے رہی ہے، برآمدی زونز قائم کیے جا رہے ہیں، صنعتی راہداریاں بنائی جا رہی ہیں اور جدید لاجسٹک نظام متعارف کرایا جا رہا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ “اُڑان پاکستان” کا فریم ورک پانچ اہم ستونوں برآمدات، ای-پاکستان، برابری اور بااختیاری، ماحولیات اور توانائی کی استعداد پر مشتمل ہے۔

احسن اقبال نے کہا کہ سرمایہ کاری کو فروغ دینے اور کاروباری آسانی کے لیے 100 سے زائد اصلاحاتی اقدامات کیے جا چکے ہیں۔ ایف بی آر، ایس ای سی پی اور دیگر اداروں کی تنظیمِ نو کی گئی ہے تاکہ شفافیت بڑھے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان خطے میں سرمایہ کاری کے لیے ایک پُرکشش منزل بن چکا ہے۔

انہوں نے نوجوانوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور حکومت نوجوانوں کے لیے ہنر مندی، اختراعات، اور کاروباری مواقع کے ذریعے ترقی کی راہیں ہموار کر رہی ہے۔

انہوں نے ای-پاکستان کے تصور پر بھی بات کی، جس کے تحت سرکاری خدمات کو ڈیجیٹل بنایا جا رہا ہے تاکہ کاروباری سرگرمیوں میں آسانی پیدا ہو۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اب ایک “ایکسپورٹ لیڈ گروتھ ماڈل” اختیار کرنا ہوگا، جیسا کہ جنوبی کوریا، چین اور تھائی لینڈ نے کیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی موجودہ برآمدات تقریباً 32 ارب ڈالر پر محدود ہیں، جو کہ ملکی آبادی اور صلاحیت کے اعتبار سے ناکافی ہیں۔ اگر ہم ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر سال برآمدات میں 5 سے 10 ارب ڈالر کا اضافہ کرنا ہوگا۔

ملک کی اقتصادی تاریخ پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے افسوس کا اظہار کیا کہ وژن 2010 اور وژن 2025 جیسے انقلابی منصوبے سیاسی عدم استحکام کی نذر ہو گئے۔ دوسری اقوام نے انہی خیالات سے فائدہ اٹھا کر ترقی کی منازل طے کر لیں اور ہم داخلی تنازعات میں الجھے رہے۔

انہوں نے 2017 میں پرائس واٹر ہاؤس کوپرز کی اس پیش گوئی کا حوالہ دیا جس میں پاکستان کو 2030 تک دنیا کی 20 بڑی معیشتوں میں شامل ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا تھا، لیکن 2018 میں آنے والی سیاسی تبدیلی اور پالیسی کا تسلسل ٹوٹنے سے ملک ترقی کے بجائے بحران کی طرف بڑھا اور 2022 تک پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے بروقت اور فیصلہ کن اقدامات سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ پہلی بار پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کر کے 12 فیصد تک لایا گیا جس سے معیشت میں استحکام پیدا ہوا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا۔ انہوں نے کہا کہ آج معیشت دوبارہ اڑان بھرنے کو تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صحرا کی ریت پر سیاہ گوش کی چاپ، چولستان میں موجود ’کیراکیل‘ کیا ہے؟

اپنے خطاب کے اختتام پر احسن اقبال نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ “کیا ہم اس ترقی کی پرواز کو محفوظ رکھ پائیں گے یا ایک بار پھر پستی کا شکار ہو جائیں گے؟”

انہوں نے تمام قومی اسٹیک ہولڈرز سے اپیل کی کہ وہ تقسیم، الزامات، اور محاذ آرائی کی سیاست کو چھوڑ کر پائیدار ترقی کو قومی ترجیح بنائیں۔

انہوں نے کہا کہ اب وقت ہے کہ ہم تحقیق، علم، اور اجتماعی سوچ کو اپنائیں، تاکہ پاکستان ایک جدید، باوقار اور عالمی سطح پر مقابلہ کرنے والی معیشت کے طور پر ابھرے۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس