بالآخر سائنسدانوں نے خون کے کینسر کی ایک ایسی نئی وجہ دریافت کرلی ہے جو ہر سال 10,000 برطانوی شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور حیرت انگیز طور پر اس کی جڑ ہماری روزمرہ کی غذا میں چھپی ہو سکتی ہے۔
امریکا کی ریاست اوہائیو میں واقع سنسناٹی چلڈرنز ہسپتال کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کے دوران انکشاف کیا ہے کہ خون کے کینسر، خصوصاً لیوکیمیا کے مریضوں کی آنتوں میں ایک مخصوص قسم کے بیکٹیریا کی مقدار غیرمعمولی طور پر زیادہ پائی گئی ہے۔
اس بیکٹیریا سے خارج ہونے والا ایک مادہ جسے “ADP-heptose” کہا جاتا ہے جسم میں پائے جانے والے پری-کینسر خلیات کو تیزی سے بڑھنے پر اکسا سکتا ہے۔
یہ حیران کن دریافت اس وقت سامنے آئی جب سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات کے دوران یہ مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں کی آنتوں میں ADP-heptose کی مقدار زیادہ تھی ان میں خون کے کینسر سے جڑے خلیات تیزی سے بڑھنے لگے بالخصوص عمر رسیدہ چوہوں میں۔
تاہم نوجوان چوہے جو ناقص غذائی عادات کی وجہ سے آنتوں کی خرابی کا شکار تھے وہ بھی محفوظ نہ رہ سکے۔
تحقیق کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر پونیت اگروال نے خبردار کیا، ’’اپنی آنتوں کا خیال رکھنا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیں: انڈیا کے جوہری قانون میں ترمیم: امریکا کو سرمایہ کاری کی دعوت
ڈاکٹر ڈینیئل اسٹارچنووسکی نے بتایا کہ یہ تحقیق ہمیں لیوکیمیا جیسے مہلک مرض کی بنیادوں تک لے جاتی ہے اور ہمیں ممکنہ طور پر ایسی مداخلت کا موقع فراہم کرتی ہے جو بیماری کی شدت اختیار کرنے سے پہلے ہی اسے روک سکتی ہے۔
ADP-heptose کی موجودگی کو ماہرین نے اُن غذاؤں سے جوڑا ہے جو فائبر، پھلوں اور سبزیوں سے خالی ہوتی ہیں اور جن میں پراسیسڈ فوڈز اور شکر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
ایک عام غیر متوازن غذا جو شاید ہمیں بے ضرر لگتی ہو، دراصل عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں موت کے قریب لے جا سکتی ہے۔
تحقیق کے مطابق آنتوں کی صحت کو بہتر بنا کر نہ صرف خون کے کینسر بلکہ دیگر کئی عمر رسیدہ بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے۔
اس کے لیے ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ اپنی خوراک میں فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے دالیں، پھل، سبزیاں اور مکمل اناج شامل کریں، ساتھ ہی پروبایوٹکس اور پری بایوٹکس کو بھی معمول بنائیں جو آنتوں میں مفید بیکٹیریا کی افزائش کرتے ہیں۔
برطانیہ میں ہر سال تقریباً 10,000 افراد لیوکیمیا میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ کی اموات واقع ہو جاتی ہیں۔
سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 37 فیصد مریضوں کی تشخیص A&E میں ہوتی ہے، یعنی اس وقت جب بیماری پہلے ہی بہت آگے بڑھ چکی ہوتی ہے۔
اس تحقیق سے ایک واضح پیغام ملتا ہے کہ اگر ہم اپنی صحت کا واقعی خیال رکھتے ہیں تو اپنی آنتوں کا خیال رکھیں کیونکہ یہ محض ہاضمے کا نظام نہیں بلکہ انسان کی بقا کی پہلی دفاعی لائن ہے۔
مزید پڑھیں: 48 فیصد نوجوانوں نے سوشل میڈیا کو ذہنی صحت کے لیے ’نقصان دہ‘ قرار دے دیا