Follw Us on:

جنگی حالات اورمحنت کشوں کی بقا!

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

دنیا کے مختلف خطوں کو دہشت گردی اور جنگی صورتحال کا سامنا ہے۔ ایک طرف فلسطینی عوام کی نسل کشی کی جا رہی ہے دوسری طرف اس آگ کو مشرقِ وسطیٰ میں بھی پھیلایادیا گیا ہے۔ جس کی مثال امریکہ کی طرف سے یمن میں کی گئی تباہی ہے جس سے حالات کی سنگینی میں مذید اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یوکرین اور روس کی جنگ میں امریکی پالیسی میں تبدیلی کو جواز بنا کر یورپ اپنے عوام کی فلاح وبہبود کو پس پشت ڈال کر دفاعی بجٹ کو بڑھاتے ہوئے اسلحہ کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑنے کی کاوششوں میں مصروف ہو گیا ہے۔

پاکستان پر نظر ڈالیں تو بلوچستان میں بڑھتی دہشت گردی اور ایران میں پاکستانی مزدوروں کا قتل انتہائی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔ اب مقبوصہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے انتہائی دلخراش سانحہ کے بعد انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتے تناؤ سے عام عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ نہ صرف لوگوں کی جانیں گئیں بلکہ پابندیوں کی پالیسی سے معاشی نقصان بھی پہنچ رہا ہے۔

دنیا بھر میں جاری اس تباہی و بربادی میں اب تک لاکھوں معصوم شہری خواتین، بچے، بزرگ مارے گے لیکن عالمی طاقتیں اس آگ سے اپنے ہاتھ گرم کرنے کے علاہ کچھ نہیں کر رہیں۔ اس آگ پر تیل ڈالتے ہوئے امریکہ نے نام نہاد ٹیرف وار کا آغاز بھی کر دیا ہے جس کے باعث اب تک ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے اور پوری دنیا ہل کے رہ گئی ہے۔

ہیجان کی یہ کیفیت اس بات کی عکاس ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے اور اقوام متحدہ اپنے قیام کے مقاصد میں ناکام ہو چکے ہیں اور یہ بین الاقوامی ادارے چند طاقتوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ موجودہ سرمایہ داری نظام میں انسانوں کی حیثیت ریت کے ایک زرے برابر ہے۔ اس نظام سے فائدہ اٹھانے اور اس کو مضبوط بنانے میں چند سرمایہ دار اورملٹی نیشنل کمپنیاں ملوث ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں 2 ہزار 443 ٹریلین ڈالر فوجی بجٹ میں ڈالا گیا تھا۔ اب حالات سے لگ رہا ہے کہ 2025 میں یہ بجٹ دگنا کرنے کا پروگرام ترتیب دیا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام کے حالات کا جائزہ لیں تو تیسری دنیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ دنیا کی تقریباً 10فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔

آئی ایل اور (ILO) کی رپورٹ کے مطابق 160 ملین بچے جس میں 63 ملین بچیاں اور 97 ملین بچے چالڈ لیبر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ کرونا کی وبا کے بعد اس تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین ورکرز بھی پوری دنیا میں مسائل کاسامنا کر رہی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ ایک گلوبل ایشو ہے۔ اس کے علاوہ ہراسگی، ہیلتھ اینڈ سیفٹی ، مستقل ملازمت، روزگار کے محدود مواقعے، کام کی غیر محفوظ جگہ، زرعی مزدور خواتین کی اکثریت کا بلامعاوضہ کام اور دوہرا استحصال ہر خطے کی عورتوں کا مسئلہ ہے۔

زندگی کے ہر شعبے میں کام کرتی خواتین ،ورک فورس کے اعدادوشمار میں مردوں کے مقابلے میں کم نظر آتی ہیں کیونکہ غیر رسمی شعبے میں کام کرنے والی 80 فیصد خواتین ورکر اپنی شناخت اور حقوق سے محروم ہیں۔ انصاف کی فراہمی کی بات کریں تو لاہور میں 9 سال تک حصول انصاف کی جدوجہد کرنے والے ورکر کی ہائی کورٹ کے سامنے خود سوزی عدالتی نظام پرسیاہ دھبہ ہے۔

مزدوروں کو ان تمام مسائل کا سامنا 21ویں صدی میں اس وقت ہے جب مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی اور اثرات کے گن گائے جا رہے ہیں۔ لیکن AI کی ترقی محنت کش خواتین اور مردوں کی زندگی میں بہتری کی ضمانت نہیں بلکہ ان کے بنیادی حق روزگار پر ذد پہنچ رہی ہے کیونکہ وہ صعنت جہاں 10 سے 12ورکرز کام کر رہے تھے آج جدید مشنری کے سبب وہاں 2 سے 4 مزدور بنا مستقل ملازمت اوردیگر بنیادی حقوق کے کام کر رہے ہیں۔

دوسری جانب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ  AIسے کئی نئی ملازمتوں کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ لیکن آنے والے وقت میں ٹیکنالوجی اور معاشی ڈھانچہ بےروزگاری میں اضافے کی بڑی وجہ ہو گی۔ ترقی پذیرممالک کی مزدور تحریک اس چیلنج سے بے خبر نظر آرہی ہے۔ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں اور یونینز کی کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آرہی۔ محنت کشوں کے حال اور مستقبل سے لاتعلق حکمرانوں کو نہ ہی اپنی ناک سے نیچے دیکھنے میں دلچسپی ہے نہ ہی صلاحیت بس جنگ کا شور مچا کر عوام کے لئے جاری فلاحی منصوبوں پر کٹ لگانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ان زمینی حقائق کے ساتھ 2025 میں مزدروں کے عالمی دن پر نہ صرف ملکی بلکہ بین لاقوامی سطح پر مزدوریونینز اور مزدور تنظیموں کو دور اندیشی کے ساتھ مؤثر لائحہ عمل اپنانے کی اشد ضرورت ہے۔ دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام میں وسائل پر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قبضے سے ثابت ہو چکا ہے کہ اس استحصالی نظام کو بدلنے کے علاوہ اب ہم محنت کشوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔ منافع کی حرس میں جہاں سرمایہ داروں نے مزدوروں کا خون چوسا وہاں انھوں نے دنیا کی ماحولیات کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ اس کے اثرات موسموں کی شدت، سیلاب، خشک سالی، قحط، بھوک، آلودگی اور مہلک بیماریوں کی صورت میں عام غریب عوام، مزدور اور کسان بھگت رہے ہیں۔ فضائی آلودگی اور آلودہ پانی سے سینکڑوں اموات ہو چکی ہیں جو مسلسل ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے نہ صرف موجودہ بلکہ آنے والی نسلیں بھی متاثر ہوں گی۔ لہذا یکم مئی کو مزدوروں کے مطالبات صرف تنخواہ بڑھانے یا روزگار دینے تک محدود نہیں رہنے چاہیے بلکہ پہلا مطالبہ استحصالی نظام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

پوری دنیا کہ مزدور جنگ کا خاتمہ اور امن کا قیام چاہتے ہیں۔ اس لیے سیاسی محاذ پر محنت کشوں کی آواز کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی تشکیل دینی ہو گی۔ خواتین جو دنیا کی آدھی آبادی ہیں ان کی نمائندگی اور فیصلہ سازی میں شمولیت یقینی بنانی ہو گی۔ تعلیم ، صحت، خوراک، رہائش، تحفظ اور روزگارکا حق سب کے لئے اور سب کے ساتھ سے ممکن بنانا ہے۔ مذہب، زبان، علاقے، رنگ اور نسل کی  بنیاد پر انسانوں میں کی گئی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے آگاہی اور اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔ تمام تر مشکلات کے باوجود یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن پر پوری دنیا کے محنت کش امن، فوری انصاف، برابری، آزادی اظہار، وسائل کی مصفانہ تقسیم اور سماجی تحفظ کے لئے ہم آواز ہوں گے۔ اس یقین کے ساتھ جدوجہد جاری رہے گی کہ محنت کش ہی اس سامراجی نظام کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی بدلا تھا اور یہ فرسودہ نظام اب بھی بدلیں گے۔

آخر میں دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد کو سرخ سلام!

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس